رسائی کے لنکس

کیا عافیہ صدیقی کی رہائی ممکن ہے ؟


عافیہ صدیقی
عافیہ صدیقی

اس سال فروری میں گوانتانامو بے کیوبا سے دو پاکستانی بھائیوں عبدلرحیم غلام ربانی اور محمد احمد غلام ربانی کی20 سال بعد رہائی کو ممکن بنانے والے انسانی حقوق کے ایک ممتاز وکیل ، کلائیو سٹافورڈ سمتھ کا کہنا ہے کہ ان کا اگلا مشن پاکستانی شہری عافیہ صدیقی کی رہائی ہے ۔

عافیہ صدیقی اس وقت امریکی ریاست ٹیکساس کی ایک وفاقی جیل میں 86 سال قید کی سزا کاٹ رہی ہیں ۔ انہیں 2010 میں نیویارک کی وفاقی عدالت نے امریکی شہریوں کو قتل کرنے کی کوشش سمیت سات الزامات میں سزا سنائی تھی ۔

وائس آف امریکہ سے بذریعہ سکائپ بات کرتے ہوئے برطانیہ میں مقیم انسانی حقوق کے امریکی وکیل کلائیو سٹافورڈ سمتھ نے کہا ہے کہ وہ اب عافیہ صدیقی کے لیے لڑیں گے اور انہیں رہا کر وا کرپاکستا ن لائیں گے ۔

کلائیو اس سال جنوری میں عافیہ صدیقی سے ملنے گئے تھے ۔

’’ گوانتاناموبے میں جن قیدیوں سے اب تک میں ملا تھا وہ ان سے زیادہ نفسیاتی صدمے کا شکار ہیں‘‘۔

عافیہ صدیقی پر الزام تھا کہ انہوں نے 2008 میں افغانستان کے صوبہ غزنی میں افغان پولیس کے ایک کمپاؤنڈ میں ایک امریکی فوجی افسر کی رائفل اٹھا لی اور امریکی فوجیوں اور ایف بی آئی اہل کاروں پر فائرنگ کی جو اس وقت عافیہ کے ’’القاعدہ‘‘ے ساتھ مبینہ روابط کے بارے میں تفتیش کر رہے تھے۔

انسانی حقوق کے وکیل کلائیو سمتھ مزید کہتے ہیں کہ عافیه کی رہائی ممکن ہے ۔

بائیں طرف سے عبدا لربانی ، کلیو سٹیفورڈ سمتھ ، احمد ربانی اور سیف اللہ پراچه. فائل فوٹو
بائیں طرف سے عبدا لربانی ، کلیو سٹیفورڈ سمتھ ، احمد ربانی اور سیف اللہ پراچه. فائل فوٹو

’’ ہمیں اس کا حل نکالنے کی ضرورت ہے۔ انہیں پاکستان کے کسی نفسیاتی اسپتال میں منتقل کیا جا سکتا ہے، جہاں ان کا علاج ہو سکتا ہے جس کی انہیں واضح طور پر ضرورت ہے۔ مجھے امید ہے کہ ہم اس پر کام کر سکتے ہیں۔ شاید ہم کوئی ایسا معاہدہ کر لیں جس میں قیدیوں کا تبادلہ ممکن ہو سکے۔ کیونکہ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو ہم پاکستان سے چاہتے ہیں، مثال کے طور پر ڈاکٹر شکیل آفریدی جنہوں نے اسامہ بن لادن کے قتل میں امریکہ کی مدد کی تھی‘‘۔

وہ کہتے ہیں کہ ایسا حل نکالا جا سکتا ہے جس سے دونوں فریق مطمئن ہو جائیں ۔

عافیہ صدیقی اس وقت ٹیکساس کے فیڈرل بیو رو آف پریزن کی میڈیکل فیسیلٹیی میں اپنی سزا کاٹ رہی ہیں ۔لیکن کیا امریکی قانون کے مطابق عافیہ صدیقی کو رہا یا ایک قیدی کی حیثیت سے پاکستان منتقل کیا جا سکتا ہے ؟

خالد کاہلوں ،امریکی ریاست کینٹکی میں مقیم ہیں ۔وہ سابق ریاستی اور وفاقی پراسیکیوٹر رہ چکے ہیں ۔

خالد کاہلوں کہتے ہیں کہ’’جہاں تک مجھے معلوم ہے ایسی کوئی چیز نہیں ہے قانون کے اندر جس میں آپ ان کی سزا کو چیلنج کر سکیں ۔انٹرنیشنل پریزنر ایکسچینج پروگرام ایک ہے ۔ لیکن بہت مشکل ہے کیونکہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان کوئی بائلیٹرل ٹریٹی نہیں ہے ۔پھر اس کے بعد ملٹی لیٹرل ٹریٹی ہوتی ہیں ۔ پاکستان اس کا بھی ممبر نہیں ہے ۔تیسری چیز قانون کے تحت ایک کمپیشنیٹ ریلیز ہوتی ہے ۔لیکن بہت مشکل ہے کہ ان میں کوئی چیز کام کرے گی ‘‘۔

عافیہ صدیقی کے بارے میں معلومات کی فراہمی سے متعلق واشنگٹن ڈی سی جاری ہونے والی تصاویر۔ 26 مئی 2004
عافیہ صدیقی کے بارے میں معلومات کی فراہمی سے متعلق واشنگٹن ڈی سی جاری ہونے والی تصاویر۔ 26 مئی 2004

عافیہ صدیقی ایک پاکستانی نیورو سائنٹسٹ ہیں جنہوں نے امریکہ کے ممتاز تعلیمی اداروں ،برینڈیز یونیورسٹی اور میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں تعلیم حاصل کی ۔عافیہ 1991 سے جولائی 2002 تک امریکہ میں مقیم تھیں۔

رپورٹس کے مطابق 2003 میں عافیہ صدیقی کراچی، پاکستان میں اپنے تین کم سن بچوں کےہمراہ پرسرار طور پر لاپتہ ہو گئی تھیں ۔ جس کے بعد ان کی موجودگی کا انکشاف افغانستان میں بگرام کے امریکی فوجی اڈے میں ہوا تھا۔

2008 میں افغانستان میں حکام نے عافیہ صدیقی کو حراست میں لیا تھا ۔ امریکی حکام نے کہا کہ انہیں ان کے قبضے سے ایسی دستاویزات ملی تھیں جن میں ڈرٹی بم بنانے کے بارے میں بات کی گئی تھی اور اس میں امریکہ کے مختلف مقامات کی فہرست دی گئی تھی۔ جنہیں نشانہ بنایا جا سکتا تھا۔

عافیہ صدیقی نے اپنے خلاف لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کیا تھا ۔

خالد کاہلوں مزید کہتے ہیں کہ عافیہ صدیقی نے ہائی کورٹ میں اپیل بھی کی تھی ، لیکن ان کی اپیل کامیاب نہیں ہوئی ۔

’’لگتا ہے کہ وہ سارے طریقے استعمال کر چکی ہیں ،سب سے بڑا مسلہ مجھے لگ رہا ہےان کی دماغی بیماری کا ، جو انہوں نے اپنی دفاع کے لیے استعمال کیا تھا ‘‘۔

عدالت میںں عافیہ صدیقی کی پیشی کے موقع پر ایک مصور کی بنائی ہوئی تصویر۔ 3 فروری 2010
عدالت میںں عافیہ صدیقی کی پیشی کے موقع پر ایک مصور کی بنائی ہوئی تصویر۔ 3 فروری 2010

عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے پاکستان کے اندر اور باہر انسانی حقوق کے کارکن بارہا آواز بلند کرتے آئے ہیں اور عوامی سطح پر کئی بار ان کے حق میں مظاہرے بھی ہو چکے ہیں ۔

ان کی بہن فوزیہ صدیقی اور خاندان کے دیگر افراد بھی عافیہ کی رہائی کے لیے تحریک چلاتے آئے ہیں ۔

انسانی حقوق کے وکلا کہتے ہیں کہ عافیہ صدیقی ایک ایسا انوکھا کیس ہے ،جس کے لیے امریکہ اور پاکستان کے درمیان رابطہ منقطع ہے۔

لیکن کیا پاکستان کی حکومت نے عافیہ صدیقی کو واپس لانے کے لیے کافی اقدامات کیے ہیں ؟

محمد اظہر صدیقی ، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان اور انسانی حقوق کے کارکن ہیں ۔وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ یہ معاملہ کئی مرتبہ ہائی کورٹ بھی آیا ، سپریم کورٹ بھی گیا ،لیکن کوئی سنجیدہ کوشش دکھائی نہیں دیتی ۔

عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کراچی میں ہونے والا ایک مظاہرہ۔ 8 مارچ 2011
عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کراچی میں ہونے والا ایک مظاہرہ۔ 8 مارچ 2011

’’ مثال کے طور پر حکومتی سظح پر بات ہونی چاہیے تھی ،اگر ان کے خلاف کوئی الزامات تھے تو شفاف مقدمے کا حق تو انہیں ملنا چاہیئے تھا ،لیکن پاکستان کی طرف سے میں نے کچھ ایسا نہیں دیکھا ‘‘۔

ایڈووکیٹ محمد اظہر صدیقی کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق اگر پاکستانی کسی ملک میں کسی بھی جگہ ہو تو پاکستانی قانون اس پرلاگو ہوتا ہے یعنی اگر اس نے کوئی جرم کیا ہے تو ہم پاکستانی لا ءکے مطابق بھی اسے ٹرائل کیا جا سکتا ہے ،اگرچہ امریکہ کا داخلی قانون اپنی جگہ پر ہے۔

پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی دفتر خارجہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ عافیہ صدیقی کی خیریت اور جلد رہائی کے حوالے سے واشنگٹن میں امریکہ اور پاکستان کے مشن کے ساتھ رابطے میں رہیں ۔

XS
SM
MD
LG