رسائی کے لنکس

عافیہ صدیقی کیس:’رائفل چلنے کا کوئی ثبوت نہیں ملا‘


ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکلا نے جمعے کو عدالت میں یہ ثابت کیا کہ عینی شاہدین کے بیانات کے علاوہ جائے وقوعہ پر ایم فور رائفل چلنے کے کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں۔

نہ تو کمرے سے رائفل کی چلی ہوئی گولیاں یا ان کے بچے ہوئے ٹکڑے، اور نہ ہی کمرے میں ٹنگے پردے پر بارود کے ذرات ملے ہیں۔ البتہ ایف بی آئی کو تفتیش کے دوران صرف نو ملی میٹر پستول کی گولی کا خول اس کمرے سے ملا تھا۔

وکیل صفائی چارلز سوفٹ نے سرکاری گواہوں سے جرح کرتے ہوئے عدالت کے سامنے واضح کیا کہ اگرچہ ایف بی آئی کی تفتیشی ٹیم دیوار کا ڈیڑھ گز کا وہ ٹکڑا پورا کا پورا کاٹ کر اپنے ساتھ لے آئی تھی جس میں ایم فور کی چلی ہوئی گولی ملنے کا امکان تھا لیکن لیبارٹری میں معائنے کے دوران انہیں کوئی گولی نہیں ملی۔

اس دوران استغاثہ کی طرف سے پیش کیے گئے ماہرین عدالت کو یہ بتاتے رہے ہیں کہ جائے واردات سے گولی کی باقیات یا بارود کے ذرات کا ملنا ضروری نہیں بلکہ مختلف حالات ان کے ملنے میں مانع ہو سکتے ہیں۔ مثلاً گولی کے ٹکڑے کسی کے پیر سے لگ کر ادھر ادھر ہو سکتے ہیں یا بہت چھوٹے ہو کر بکھر سکتے ہیں۔ جب کہ بارود کے ذرات صرف اس وقت کسی کپڑے پر ملتے ہیں جب فائر ڈیڑھ یا دو فٹ قریب سے کیا گیا ہو۔

وکلائے صفائی یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ انھوں نے ایم فور رائفل فائر ہی نہیں کی تھی۔ جب کہ اس سے پہلے استغاثہ کے گواہ یہ بیان دے چکے ہیں کہ انہوں نے عافیہ صدیقی کو ایم فور رائفل سے کم از کم دو گولیاں چلاتے ہوئے دیکھا تھا۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر الزام ہے کہ انہوں نے افغانستان میں ایک امریکی ٹیم پر ایم فور رائفل سے حملہ کیا تھا۔

امریکی حکومت کے مطابق افغان پولیس نے عافیہ صدیقی کو غزنی کے گورنر کی رہائش گاہ کے باہر سے 17 جولائی 2008ء کو حراست میں لیا تھا۔ ایک امریکی ٹیم، جس میں ایف بی آئی اور فوج کی سپیشل فورسز کے رکن شامل تھے، ڈاکٹر صدیقی سے پوچھ گچھ کرنے غزنی کے پولیس ہیڈ کوارٹر گئی جہاں ان کے افغان ہم منصب انہیں ایک ایسے کمرے میں لے گئے جہاں درمیان میں پردہ ٹنگا تھا۔

اس بات سے لاعلم کہ عافیہ صدیقی پردے کے پیچھے موجود ہیں، ایک امریکی فوجی نے اپنی رائفل پردے کے پاس ہی کرسی پر رکھ دی اور افغان پولیس والوں سے گفتگو میں مصروف ہو گیا۔ عافیہ صدیقی نے وہی رائفل اٹھا کر کمرے میں موجود امریکیوں پر گولی چلا دی۔ ایک افغان مترجم نے انہیں دھکا دے کر رائفل چھین لی اور ایک امریکی فوجی کی جوابی فائرنگ سے وہ زخمی ہو گئیں۔ بگرام کے ہوائی اڈے پر عافیہ صدیقی کا علاج کیا گیا اور پھر نیویارک بھیج دیا گیا جہاں ان پر اقدامِ قتل کا مقدمہ چل رہا ہے۔

عافیہ صدیقی کے حامی بالکل مختلف قصہ سناتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں اعلٰی تعلیم حاصل کرنے والی اس پاکستانی خاتون کو 2003ء میں کراچی سے تین بچوں سمیت پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے اغوا کر لیا تھا جس کے بعد انہیں بگرام بھیج دیا گیا اور پانچ سال غیر قانونی قید میں رکھ کر ان پر تشدد کیا گیا۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا بڑا بیٹا بھی ان کے ساتھ ہی غزنی سے ملا تھا اور آج کل پاکستان میں اپنی خالہ اور نانی کے پاس ہے۔ ان کے باقی دو بچوں کا کچھ پتا نہیں۔

جج رچرڈ برمن کا کہنا ہے کہ یہ کیس وقت کے مطابق چل رہا ہے اور امید کی جا رہی ہے اگلے ہفتے کے اختتام تک جرح ختم ہو جائے گی اور جیوری کا پینل اپنی مشاورت کا آغاز کر دے گا۔

XS
SM
MD
LG