اس ہفتے جنیوا میں پناہ گزینوں کے ایک فورم میں شریک ملکوں اور کمپنیوں نے پناہ گزینوں کے لیے دوسرے اہداف کے ساتھ ساتھ شفاف توانائی تک رسائی کے لئے امداد میں اضافے کا وعدہ کیا۔ تحقیقات سے ظاہر ہوا ہے کہ قابل تجدید توانائی سے نقل مکانی کی کچھ بنیادی وجوہات میں کمی سمیت کئی دوسرے فائدے بھی ہوتے ہیں۔
توانائی تک رسائی افریقہ کو درپیش سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہے خاص طور پر پناہ گزینوں کے لیے توانائی تک رسائی۔
توانائی کھانا پکانے اور حرارت کے لیے اور پناہ گزینوں کے اسکولوں اور طبی مراکز میں بجلی کی فراہمی انتہائی اہم ضرورت ہے۔ اس کے حاصل نہ ہونے کا مطلب ہے جلانے کی لکڑ ی اور کوئلے کے لیے درختوں کا کاٹا جانا۔
ایتھیوپیا کے پناہ گزینوں سے متعلق ادارے کی انسانی ہمدردی کی امداد کے شعبے کے ڈائریکٹر فسحا میرٹ کنڈی کہتے ہیں کہ میزبان کمیونٹیز بوجھ برداشت کر رہی ہیں کیوں کہ بہت سے پناہ گزینوں کی میزبانی ماحول کو متاثر کر رہی ہے۔
پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کے کلائمیٹ ایکشن ایڈوائزر اینڈریو ہاپر کہتے ہیں کہ افریقہ میں توانائی کی موجودہ صورت حال خاصی خراب ہے، کیوں کہ پناہ گزینوں کے 90 فیصد مقامات اور مضافاتی علاقوں میں اکثر اوقات مستقل اور سستی توانائی بالکل دستیاب نہیں ہوتی۔
پناہ گزینوں کے امور سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے نے پناہ گزینوں کے اپنے کیمپوں میں شفاف، قابل تجدید توانائی پہنچانے کے لیے ایک چار سالہ منصوبے پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔
ادارہ پہلے ہی اپنے کیمپوں کے مقامات میں، جن میں افریقی ملکوں کے مقامات شامل ہیں، گرین پراجیکٹس پھیلا رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ ایسے اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے جیسا کہ ہسپانوی گروپ الینزا شائرجس میں تین پاور کمپنیاں شامل ہیں۔ الینزا شائر ایتھیوپیا کے توانائی کے گرڈ کو شمال میں پناہ گزینوں کے کیمپوں تک توسیع دے رہا ہے اور شمسی توانائی کے سسٹم تعمیر کر رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم گرڈ انتظامیہ پر، شمسی توانائی پر اور لائٹنگ پر فیلڈ میں بہترین ماہرین مقرر کر رہے ہیں۔ اور وہ اس پراجیکٹ میں ایک اور نقطہ نظر کو بھی پیش نظر رکھ رہے ہیں جو پائیدار اور طویل عرصے تک کار آمد رہنے والی توانائی ہے۔
نئی تحقیقات سے ظاہر ہوا ہے کہ شفاف توانائی تک منتقلی مالی اور ماحولیات کے اعتبار سے بھی فائدے مند ہوتی ہے۔ تاہم، ابھی بھی نجی کمپنیوں کو اس پر قائل کرنا باقی ہے جنہیں ہو سکتا ہے یہ ڈر ہو کہ پناہ گزینوں پر سرمایہ کاری میں نقصان کا خطرہ ہو سکتا ہے۔
یو این ایچ سی آر کے کلائمیٹ اایکشن ایڈوائزر اینڈریو ہاپر کہتے ہیں کہ ہم بنیادی طور پر یہ کہہ رہے ہیں کہ افریقہ میں توانائی کے لیے مارکیٹ صرف چھ، سات ملین پناہ گزینوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ایک اعشاریہ دو ارب لوگوں کے لیے ہے۔ ہمیں اسے پورے براعظم کے دیہی علاقوں میں بجلی پہنچانے کے عمل کے ایک حصے کے طور پر دیکھنا چاہیے۔
ابھی تک بہت سے پناہ گزینوں کے پاس توانائی کے محدود وسائل میسر نہیں ہیں۔ بیشتر آلودگی آب و ہوا کی تبدیلی پر اثر انداز ہو ہی ہے جو پہلے سے زیادہ لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور کر رہے ہے۔