رسائی کے لنکس

’خبرناک‘ کی میزبانی سے دست بردار ہو جاؤں گا: آفتاب اقبال


aftab iqbal
aftab iqbal

’’جب ’حسب ِحال‘ کامیاب ہوا تو دوستوں سمیت گھر والوں کا بھی یہی خیال تھا کہ یہ ایک ’تکّا‘ ہے۔ مگر مجھے یقین تھا کہ میں اس سے کچھ مزید بہتر کروں گا۔ اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے، ’خبرناک‘ نے دو ماہ میں اپنی رفتار پکڑ لی تھی‘‘۔ آفتاب اقبال کی وائس آف امریکہ سے گفتگو۔

’مجھے یوں لگتا ہے کہ میری خاصیت میری تخلیقی صلاحیت ہے۔ باقی چیزیں تو محض لوازمات ہوتی ہیں جو آپ کی شخصیت کو بناتی ہیں، سنوارتی ہیں اور آپ کے اندر کی creativity کی آبیاری کرتی ہیں۔ تخلیقی صلاحیت دراصل شاعری کی طرح خُداداد ہوتی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو آپ کہیں سے سیکھ نہیں سکتے۔ یہ آپ کے اندر ہوتی ہے اور آپ نے اسے باہر نکالنا ہوتا ہے‘۔۔۔ ایسا ماننا ہے آفتاب اقبال کا، جنہوں نے گذشتہ کئی برسوں سے اپنے پروگرام کے ذریعے نہ صرف اپنے ناظرین کو ہنسانے بلکہ مختلف موضوعات پر ہلکے پھلکے انداز میں معلومات دینے کے سلسلے کا بھی آغاز کر رکھا ہے۔

آفتاب اقبال نے 1986ء میں پاکستان میں انگریزی زبان کے ذریعے عملی صحافت میں قدم رکھا۔ مگر کچھ ہی عرصے میں وہ جان گئے کہ معاشرے کی نبض تک پہنچنے کے لیے اردو زبان کو ذریعہ ِاظہار بنانا ہوگا تاکہ عام آدمی کے ساتھ براہ ِراست تعلق استوار کیا جا سکے اور ان تک اپنی بات پہنچائی جا سکے۔


آفتاب اقبال کو 80 کی دہائی میں ہی امریکہ جا کر پڑھنے کا موقع بھی ملا۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ میں گزرا وقت ان کے دل سے بہت قریب ہے اور امریکہ کی وجہ سے انہیں زندگی میں بہت سی چیزیں سیکھنے کا موقع ملا۔

آفتاب اقبال کہتے ہیں کہ یوں تو انہیں بہت سی ریاستیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا مگر واشنگٹن میں گزارا وقت آج بھی ان کے ساتھ ہے۔ اسی لیے وہ واشنگٹن ڈی سی ک اپنا دوسرا گھر مانتے ہیں۔

ایک طویل عرصے سے انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں کالم لکھتے چلے آ رہے ہیں۔ آفتاب اقبال کو پنجاب حکومت کے ساتھ بطور میڈیا کنسلٹنٹ بھی کام کرنے کا موقع ملا اور کہتے ہیں کہ اسی تجربے نے انہیں ملک کے سسٹم سے روشناس کرایا جو بقول ان کے جمود کا شکار ہے۔

جب ہم نے آفتاب سے ’حسب ِ حال‘ کی طرز پر پروگرام کے آغاز کے بارے میں سوال کیا تو کہنے لگے، ’مجھے جب ٹی وی پر پروگرام کرنے کے لیے کہا گیا تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس پروگرام کو اپنے کالم کی طرز پر پیش کیا جائے۔ میرا کالم شرارتی ہوتا ہے مگر اس میں شرارت کے ساتھ ساتھ اسلوب کی خوبصورتی بھی ہوتی ہے اور کامیڈی بھی پائی جاتی ہے۔ بس یہی بنیادی خیال تھا جو ’حسب ِ حال‘ کا باعث بنا‘۔

’مگر حسبِ حال جیسے شو کا آغاز کرنا، اسے کامیاب بنانا اور عین کامیابی میں چھوڑ دینا، آپ کے لیے مشکل نہیں تھا؟‘ ۔۔۔ یوں معلوم ہوا کہ جیسے آفتاب اقبال کے لیے یہ سوال غیر متوقع نہیں تھا، کہنے لگے، ’ اس پروگرام کا لطف ہی یہ تھا کہ میں نے اسے عین عروج پر چھوڑ دیا۔ دراصل میں اس سے بڑھ کر کچھ کرنا چاہتا تھا۔ حالانکہ جب میں نے ’حسب ِحال‘ چھوڑا تو نہ صرف میرے جاننے والے بلکہ میرے بہن بھائیوں تک کا یہ خیال تھا کہ ’حسب ِحال‘ ایک تکّا تھا اور تکے بار بار نہیں لگتے۔ مگر مجھے یقین تھا کہ میں اس سے کچھ مزید بہتر کروں گا۔ اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے، ’خبرناک‘ نے دو ماہ میں اپنی رفتار پکڑ لی تھی‘۔۔۔


آفتاب اقبال کہتے ہیں کہ اگلے دو سالوں میں ’خبرناک‘ کی میزبانی چھوڑ دیں گے۔ ان کے مطابق ’خبرناک‘ کی آئندہ ممکنہ میزبان ان کی بیٹی ہو سکتی ہیں جو ’خبرناک‘ کی تیاری میں ان کے ساتھ ساتھ رہیں۔

آفتاب اقبال چاہتے ہیں کہ وہ اپنی توجہ اپنے پروڈکشن ہاؤس پر مرکوز کریں اور مختلف نوعیت کے پروگرام ترتیب دیں۔

آفتاب اقبال اپنی سوانح ِحیات پر بھی کام کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب وہ ’خبرناک‘ کی طرز پر ایک انگریزی پروگرام کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔


اس انٹرویو کے بارے میں مزید تفصیلات نیچے دئیے گئے آڈیو لنک میں سنیئے۔

آفتاب اقبال کی وائس آف امریکہ سے گفتگو
please wait

No media source currently available

0:00 0:24:00 0:00
XS
SM
MD
LG