رسائی کے لنکس

گلوبل بزنس ٹیکس کا معاہدہ ایک بڑی کامیابی ہے، امریکی وزیر خزانہ جینٹ یلین


امریکی وزیر خزانہ جینٹ یلین سینیٹ کی کمیٹی کی سماعت کے دوران۔ 23 جون 2021
امریکی وزیر خزانہ جینٹ یلین سینیٹ کی کمیٹی کی سماعت کے دوران۔ 23 جون 2021

بائیڈن انتظامیہ کی وزیر خزانہ جینٹ یلین نے 130 ملکوں کے درمیان تجارت پر عائد ٹیکسوں سے متعلق سمجھوتے کو ایک بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے، اسے 'اقتصادی سفارت کاری' کی عمدہ مثال سے تعبیر کیا ہے۔

اس معاہدے کے تحت چین، روس، بھارت اور جی-20 کے تمام ارکان سمیت دنیا کے 130 ممالک،کارپوریشنوں پر کم از کم 15 فی صد ٹیکس لگانے پر متفق ہو گئے ہیں۔

وزیر خزانہ یلین اس سے قبل متعدد موقعوں پر یہ کہہ چکی ہیں کہ غیر ملکی کمپنیوں کو اپنی سرزمین پر سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنے کی غرض سے ٹیکسوں کو گھٹا کر انتہائی نچلی سطح پر لانے کی روش کو روکنا ہو گا۔

جمعرات کو جاری ہونے والے ایک بیان میں یلین نے کہا ہے کہ کوئی بھی ملک یہ دوڑ نہیں جیت سکا، بلکہ اس کا الٹا نقصان ہوا ہے، کیونکہ ٹیکسوں کی کم شرح نہ صرف یہ کہ نئی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے میں ناکام رہی ہے، بلکہ اس سے متعلقہ ملکوں میں بنیادی ڈھانچے، تعلیم اور وبائی امراض سے نمٹے جیسے اہم امور کے لیے فنڈز کی دستیابی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

امریکی وزیر خزانہ جینٹ یلین لندن میں جی سیون کانفرنس کے موقع پر۔ جون 2021
امریکی وزیر خزانہ جینٹ یلین لندن میں جی سیون کانفرنس کے موقع پر۔ جون 2021

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ میں اس ٹیکس کے نفاذ سے کارپوریشنز ان منصوبوں کی تکمیل میں اپنا حصہ ڈال سکیں گی۔

اس معاہدے کا مقصد یہ ہے کہ بین الاقوامی نوعیت کی کارپوریشنوں کو دنیا بھر میں ٹیکس کے کسی مناسب نظام کے تحت لایا جائے جس سے متعلقہ حکومتیں وہ اربوں ڈالر حاصل کر سکیں،جو ماہرین کے بقول، ہرسال اس وجہ سے محروم ہو جاتی تھیں کیونکہ کارپوریشنز ٹیکس بچانے کےحربے استعمال کرتی ہیں۔

لیکن گزشتہ برسوں کے دوران اس منصوبے پر پیش رفت رکی رہی ہے۔

گوبل پراجیکٹس ایٹ دی ٹیکس فاؤنڈیشن کے نائب صدر ڈینیئل بن کہتے ہیں کہ یہ کہنا بجا طور پر مناسب ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے اس سمت پیش رفت کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ عالمی سطح پر کم ازکم ٹیکس کے منصوبے کو آگے بڑھانے میں پوری طرح شریک نہیں تھی۔ تاہم، انہوں نے اس پراجیکٹ پر دستخطوں سے متعلق دوسرے ملکوں کو قائل کرنے لیے رابطے جاری رکھے۔

اس معاہدے کا بنیادی مقصد یہ ہےکہ کمپنیوں کو اس چیز پر پابند کیا جائے کہ جن ملکوں میں ان کی مصنوعات اور سروسز استعمال کی جاتی ہیں، وہاں وہ اپنے منافع پر کچھ نہ کچھ ٹیکس ادا کریں۔

اس تجویز کے تحت ٹیکسوں کے ایک نظام کا اطلاق کیا جائے گا جس سے ان ملکوں کو، جہاں کمپنیوں کی مصنوعات اور سروسز استعمال ہوتی ہیں، قابلِ ٹیکس منافع سے حصہ دیا جائے گا۔

جینٹ یلین واشنگٹن میں ایک کانفرنس کے دوران۔ 28 جنوری 2021
جینٹ یلین واشنگٹن میں ایک کانفرنس کے دوران۔ 28 جنوری 2021

اگرچہ وائٹ ہاؤس نے اس معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کافی کوشش کی ہے، لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب معاہدے پر عمل درآمد کا وقت آئے گا تو کئی سوال اٹھ سکتے ہیں۔

پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ فارانٹرنیشنل اکنامکس کے سینئر فیلو گیری ہاف بیور کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں سب سےبڑی رکاوٹ بہت ہی بنیادی نوعیت کی ہے۔ اس کا تعلق ٹیکسوں سے متعلق اس قانون سازی سے ہے جو جمہوری حکومتوں کے قانون ساز کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ مثال کے طور پر امریکہ میں سینیٹ کی فنانس کمیٹی اور ہاؤس ویز اینڈ مینز کمیٹی اور کانگریس مین اور سینٹرز جب وہ اس حوالے سے ٹیکس قوانین بنائیں گے تو ممکن نہیں ہے کہ وزیر مالیات یلین کی سوچ کے مطابق ہی عمل کریں۔

وہ کہتے ہیں کہ کچھ ایسا ہی یورپی یونین میں بھی ہو گا کیونکہ یورپی یونین کے کئی ملکوں نے جن میں آئرلینڈ، ہنگری، ایسٹونیا اور قبرص نے اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے اور مستقبل میں بھی ان کا اس معاہدے میں شریک ہونے کا ارادہ نہیں ہے۔

دوسری طرف،کئی ماہرین ٹیکسوں کے حوالے سے مختلف انداز کی سوچ رکھتے ہیں۔ اربن بروکنگز ٹیکس پالیسی سینٹر کے ایک سینئر فیلو تھورنٹن میتھسن کہتے ہیں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ او ای سی ڈی کے معاہدے میں کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ متعلقہ ممالک ٹیکسوں پر قانون سازی کے حوالے سے کیا کریں گے۔

XS
SM
MD
LG