رسائی کے لنکس

گوجرانوالہ: پولیس پر احمدی جماعت کی قدیم عبادت گاہ کے مینار منہدم کرنے کا الزام


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں احمدی جماعت کی عبادت گاہ کو نامعلوم افراد نے مبینہ طور پر نقصان پہنچایا ہے جس کے نتیجے میں قیامِ پاکستان سے قبل تعمیر کی گئی قدیم عبادت گاہ کے مینار ٹوٹ گئے ہیں جب کہ احمدی جماعت نے پولیس پر اس کارروائی کا الزام عائد کیا ہے۔

احمدی جماعت سے تعلق رکھنے والے مقامی افراد کے مطابق جمعرات کو جس عبادت گاہ کو نقصان پہنچایا گیا ہے وہ باغبانپورہ میں قائم ہے، جس کے بیرونی دروازے پر مینار بنائے جانے کے خلاف چھ ماہ قبل پولیس کو درخواست دی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ عبادت گاہ کے مینار گرائے جائیں۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ قدیم عبادت گاہ کو کسی بھی نقصان سے بچانے کے لیے میناروں کو لوہے کی چادر لگا کر ڈھانپ دیا گیا تھا تا کہ نظر نہ آئیں، اس کے باوجود ان میناروں گرایا گیا۔

احمدی جماعت کے پاکستان میں مرکزی رہنما عامر محمود بتاتے ہیں کہ ان کی عبادت گاہ کو نقصان پہنچانے کا واقعہ سات اور آٹھ دسمبر کی درمیانی شب دو بجے پیش آیا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے الزام لگایا کہ مقامی پولیس دو گاڑیوں میں آئی، جو اپنے ساتھ ایک ایکسیویٹر اور ایک لوڈر بھی لائے تھے۔ اُنہوں نے عبادت گاہ کے سامنے سڑک کو بند کرکے لائٹس بھی بند کرا دیں۔

اُن کے بقول اِس کے بعد دروازے پر بنے میناروں کو گرایا گیا جب کہ پولیس اہل کار ملبہ بھی ساتھ لے گئے۔

احمدی جماعت کے رہنما کا کہنا تھا کہ جن کی ذمہ داری لوگوں اور جان ومال کی حفاظت ہے، وہ مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔

ان کے بقول میناروں کا گرایا جانا پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ تشویشناک ہے کہ احمدیوں کو عبادت کا حق نہیں دیا جا رہا۔

احمدی جماعت کے مرکزی رہنما عامر محمود سمجھتے ہیں کہ ایسے واقعات سے نہ صرف احمدیوں کی عبادگاہیں نشانے پر ہیں بلکہ انہیں ڈرایا اور دھمکایا بھی جا رہا ہے۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پولیس مبینہ طور پراِس واقعے میں ملوث ہے تو اُنہیں سمجھ نہیں آ رہا کہ اُن کی عبادت گاہ کی توڑ پھوڑ کے خلاف درخواست کس کو دیں؟

وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں گوجرانوالہ کے سینٹرل پولیس افسر (سی پی او) عمر سلامت سے رابطہ کیا مگر وہ دستیاب نہیں ہو سکے۔

سی پی او گوجرانوالہ کے ترجمان سب انسپکٹر سلطان علی نے بتایا کہ وہ اس بارے جلد حقائق معلوم کرکے میڈیا کو آگاہ کریں گے۔

خیال رہے رواں ماہ امریکہ کی جانب سے مذہبی آزادیوں پر خاص تشویش والے ممالک میں پاکستان کا نام شامل کیا گیا تھا۔

سال 2014 میں پاکستان کی عدالتِ عظمٰی نے ایک مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے ہدایات جاری کی تھیں کہ پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیے ایک الگ خصوصی فورس (ٹاسک فورس) بنائی جائے۔

انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان نے ایک ٹوئٹ میں اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نہ صرف احمدی برادری کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ 2014 کے سپریم کورٹ کے تصدق جیلانی فیصلے کی روح کے بھی برعکس ہے۔

احمدیوں کی عبادت گاہ کو نقصان پہنچائے جانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ گزشتہ ماہ 22 نومبر کو پنجاب ہی کے ضلع حافظ آباد کے علاقے پریم کوت میں احمدیوں کی قبروں کے کتبوں کو توڑ کر اُن پر نازیبا الفاظ لکھ دیے گئے تھے۔

اِس سے قبل رواں برس اگست میں ملک کے سب سے بڑے شہر اور سندھ کے دارالحکومت کراچی میں احمدیوں کی عبادت گاہ کو گرائے جانے کی درخواست بھی پولیس کو موصول ہوئی تھی۔

قبل ازیں رواں ہفتے لاہور کی نجی یونیورسٹی لمز میں برداشت اور روادری پر منعقدہ ایک مباحثے میں احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے مہمان کو مدعو کر کے تقریب سے چند گھنٹے قبل معذرت کر لی گئی تھی۔ اِس مذاکرے میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد شریک تھے۔مختلف عالمی تنطیمیں پاکستان میں انتہا پسندی پر تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہیں۔

XS
SM
MD
LG