رسائی کے لنکس

حافظ آباد: پولیس نے احمدیوں کی قبروں سے کتبے کیوں ہٹائے؟


پاکستان میں جماعت احمدیہ کے ترجمان نے پنجاب کے ضلع حافظ آباد میں احمدی برادری کے افراد کی قبروں پر لگے کتبے توڑنے کی مذمت کی ہے۔ جماعت کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں احمدی اب اپنی قبروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔

جماعت احمدیہ کے ترجمان نے سوشل میڈیا پر کچھ تصاویر اور ویڈیوز بھی شیئر کی ہیں جن میں احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی قبروں کے کتبے ٹوٹے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

البتہ مقامی انتظامیہ کا موؐقف ہے کہ یہ کارروائی عدالتی حکم پر احمدی برادری اور مسلمانوں کے مشترکہ قبرستان میں کی گئی۔ خیال رہے کہ پاکستان کے آئین میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے اور ان کے لیے اسلامی شعائر کے اختیار و استعمال پر پابندی ہے۔

انسانی حقوق کی ملکی اور بین الاقوامی تنظیمیں ایسے قوانین کو مذہبی آزادیوں کے منافی خیال کرتی ہیں۔

ضلعی پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ فریقین کے درمیان گزشتہ سال اکتوبر میں مقامی سیشن کورٹ میں کیس چلا تھا جس میں عدالت کی طرف سے رٹ پٹیشن نمٹا دی گئی تھی۔

پولیس ترجمان کے مطابق پولیس کی طرف سے چار اور پانچ فروری کی درمیانی شب کی جانے والی کارروائی علاقے میں امن کی فضا برقرار رکھنے کے لیے ضروری تھی۔

ڈپٹی کمشنر حافظ آباد محمد آصف رضا نے وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو چند روز قبل ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی میں زیرِ بحث لایا گیا اور اس کے قانونی پہلوؤں پر غور کیا گیا۔

اُن کے بقول’ احمدی کمیونٹی سارے معاملے میں آن بورڈ ہے اور ہم نے ان کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں کیا اور نہ کرنا چاہتے ہیں‘۔

ڈپٹی کمشنر کا کہنا ہے کہ احمدیہ کمیونٹی نے لکھ کر دیا تھا کہ وہ اپنے گھروں اور قبروں سے اسلامی شعائر پر مبنی الفاظ ختم کر دیں گے اور مقررہ مدت یعنی پانچ اکتوبر 2021 تک انہوں نے گھروں کے باہر لکھی گئی اسلامی عبارتیں ہٹا دی تھیں۔ البتہ قبروں سے یہ الفاظ نہیں مٹائے گئے تھے جس پر دوبارہ کشیدگی کی فضا بنی۔

ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ضلعی انتظامیہ اب بھی اس سارے معاملے کو مسلسل مانیٹر کر رہے ہیں ، احمدی کمیونٹی کے مقامی لوگ ہمارے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور ہمارے ساتھ تعاون کررہے ہیں انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

پرامن گاؤں میں کشیدگی کا آغاز کیسے ہوا؟

ضلع حافظ آباد کا گاؤں پریم کوٹ اور اس سے ملحقہ کچھ دیہات کا ایک ہی مشترکہ قبرستان ہے جس میں مسلمان اور احمدی برادری کے لوگوں کی تدفین کی جاتی ہے اور ماضی میں کسی فریق کو کوئی اعتراض یا ایک دوسرے کے خلاف شکایت پیدا نہیں ہوئی تھی۔

البتہ گاؤں کے رہائشی عمر حیات نامی شخص نے چند ماہ قبل پولیس کو درخواست دی کہ احمدی برادری کے لوگ خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں اور گاؤں کے قبرستان میں موجود ان کی قبروں کے کتبوں پر وہ عبارتیں لکھی ہوئی ہیں جو مسلمان اپنی قبروں کے کتبوں پر لکھتے ہیں۔ درخواست میں آئینِ پاکستان کی بعض دفعات کا بھی حوالہ دیا گیا تھا۔

درخواست میں پولیس اور گاؤں میں مقیم احمدی برادری کے کچھ افراد کو فریق بنایا گیا تھا۔

ایڈیشنل سیشن جج نے اس رٹ پٹیشن پر حافظ آباد کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) سے رپورٹ طلب کی جس پر ڈی پی او نے ڈی ایس پی صدر سرکل کو معاملے کی تحقیقات کی ہدایات جاری کیں۔اس پر پولیس نے معاملہ پر فریقین کے ساتھ مصالحت سے نمٹانے کی کوشش کی اور ڈی ایس پی صدر نے، اطلاعات کے مطابق، درخواست گزار عمر حیات اور احمدی برادری کے اہم افراد کو اپنے دفتر طلب کیا۔ جہاں احمدی برادری کے افراد کو پابند کیا گیا کہ وہ کسی قسم کے اسلامی شعائر کی اشاعت یا تشہیر نہیں کریں گے اور اپنے گھروں کے باہر جو اسلامی عبارتیں لکھی ہوئی ہیں اُنہیں ہٹا دیں گے۔

ڈپٹی کمشنر حافظ آباد محمد آصف رضا کے مطابق فریقین کے درمیان اشٹام پر معاہدہ لکھا گیا جس پر دونوں اطراف سے دستخط کیے گئے۔ اس معاہدے کے تحت احمدی برادری کے افراد کو چھ روز کی مہلت دی گئی کہ وہ گھروں کے باہر سے مسلمانوں کے لیے مقدس الفاظ مٹا دیں گے۔

اعلی ضلعی عہدیدار نے بتایا کہ جماعتِ احمدیہ کے ضلعی جنرل سیکرٹری محمد لقمان نے بھی اپنی جماعت کی طرف سے اشٹام پیپر لکھ کردیا تھا کہ ان پر پولیس ، ضلعی انتظامیہ یا کسی فرد کا کوئی پریشر نہیں ہے۔

پولیس کی طرف سے دی گئی چھ روزہ ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد تھانہ صدر حافظ آباد کے ایس ایچ او نے گاؤں کا دورہ کیا اور ڈی ایس پی کو رپورٹ بھجوائی کہ معاہدے پر عمل درآمد ہو چکا ہے اور احمدی برادری نے اپنے گھروں کے باہر درج اسلامی عبارتیں ہٹا دی ہیں۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر حافظ آباد نے معاملہ پرامن طریقے سے قانون کے مطابق حل ہونے کی رپورٹ سیشن عدالت کو ارسال کر دی یوں پولیس کی رپورٹ کی روشنی میں ایڈیشنل سیشن جج نے رٹ پٹیشن نمٹا دی۔

احمدیوں کی قبروں سے پولیس نے کتبے کیوں ہٹائے؟

پولیس اور عدالت کی کارروائی کے بعد معاملہ ختم ہو گیا تھا لیکن درخواست گزار فریق کے تحفظات ایک بار پھر سامنے آنے لگے۔ گاوں کے رہایشیوں کی جانب سےکہا گیا کہ احمدی برادری کی طرف سے اپنے گھروں کے باہر اسلامی حروف اور کلمے تو ہٹا دیے گئے لیکن احمدی برادری کی جن قبروں پر کلمہ طیبہ، اللہ یا پیغمبرِ اسلام سے متعلق کوئی بھی عبارت لکھی ہوئی ہے اسے بھی مٹایا جائے۔

ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر نے معاملہ کو ضلعی امن کمیٹی کے اجلاس میں پیش کیا جس میں پولیس کو ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ امن و امان کی فضا برقرار رکھنے کے لیے ضروری اقدامات بروئے کار لائے اور ایسی قبروں سے کتبے ختم کیے جائیں۔

پولیس نے کاروائی رات گئے کیوں کی؟

جماعت احمدیہ کے ترجمان کے مطابق چار اور پانچ فروری کی درمیانی شب پولیس کی دو گاڑیاں پریم کوٹ قبرستان پہنچیں ، پولیس اہلکاروں کے پاس ہتھوڑے تھے اور کچھ مزدور بھی اُن کے بقول پولیس کے ہمراہ تھے۔

ایک درجن سے زیادہ پولیس اہلکاروں اور مزدوروں نے احمدی برادری کے افراد کی قبروں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان قبروں کے کتبے گرا دیے۔ یہ کارروائی تین سے چار گھنٹے تک جاری رہی جب یہ یقین ہو گیا کہ احمدی برادری کے افراد کی تمام قبروں سے کتبے مسمار ہوچکے ہیں تو پولیس اہلکاروں نے ملبہ وہیں رہنے دیا اور خود گاڑیوں میں واپس چلے گئے۔

قبروں سے کتبے ہٹانے کی وڈیو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہے۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ رات کے وقت کارروائی امن و امان کی صورتِ حال کے پیشِ نظر کی گئی، اُن کے بقول اگر دن میں یہ کارروائی کی جاتی تو احمدی کمیونٹی کے افراد اس میں رخنہ ڈالتے جس سے لامحالہ کشیدگی میں اضافہ ہو جاتا۔

احمدی برادری کا ردِعمل

پاکستان میں احمدی برادری کے ترجمان عامر محمود نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے پیغام میں پولیس کی اس کارروائی کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔

ترجمان نے الزام لگایا کہ پولیس اور سرکاری انتظامیہ احمدیوں کو دبانے کے لیے متنازع قوانین کو احمدی مخالفین کی خوشنودی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

احمدی کمیونٹی کے الزامات پر ردِ عمل دیتے ہوئے ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ قبروں سے اسلامی الفاظ ختم کرنا احمدی کمیونٹی کی ذمہ داری تھی ۔ البتہ جب انتظامیہ نے خود یہ کارروائی کی تو قبروں کی بے حرمتی نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی قبر کو مسمار کیا گیا۔ لہذٰا جو لوگ بھی قبروں کی بے حرمتی کا، ان کے بقول ، پروپیگنڈا کر رہے ہیں وہ سراسر غلط ہے۔

ادارتی نوٹ:اس خبر کو بعض حقائق کی تصدیق کے لیے ویب سائٹ سے ہٹا لیا گیا تھا۔ اب اسے مزید معلومات کے اضافے کے بعد دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG