رسائی کے لنکس

کیا کامیاب شادی کا کوئی راز ہے؟


رشتہ توڑنا آسان کام نہیں مگر رشتہ قائم رکھنا بھی یقیناً اس سے مشکل ہی ہے۔
رشتہ توڑنا آسان کام نہیں مگر رشتہ قائم رکھنا بھی یقیناً اس سے مشکل ہی ہے۔

ہم نے یہ تو سنا ہی ہو گا کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں البتہ ان رشتوں کو قائم رکھنا آسان کام نہیں بلکہ یہ ساری زندگی کی جدوجہد ہوتی ہے۔

شادی کے بعد اسے کامیاب بنانا کسی ایک فرد کا کام نہیں ہے بلکہ اس رشتے کو مضبوط بنانے کے لیے دونوں کو ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوتا ہے۔

کیا کامیاب شادی کا کوئی راز ہے؟

اس موضوع پر ہمارے حالیہ شو 'عین مطابق' میں گفتگو کی گئی ہے۔

ہم نے مشہور جوڑے سعود اور جویریہ کے سامنے یہی سوال رکھا اور دو عام شادی شدہ جوڑوں کے سامنے بھی، جن میں ایک جوڑا گزشتہ 37 برس سے کامیاب شادی شدہ زندگی گزار رہا ہے۔ جب کہ دوسرے جوڑے کا تعلق نئی نسل سے ہے جن کی شادی کو ابھی چھ برس کا عرصہ ہی ہوا ہے۔

آپ ہمارا یہ شو ہر پیر کی رات نو بجے اردو وی او اے کے یوٹیوب چینل اور فیس بک کے صفحے پر براہِ راست دیکھ سکتے ہیں۔

'عین مطابق' کاحالیہ شو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔

زیرِ نظر تحریر عین مطابق کی میزبان ندا فاطمہ سمیر کی ہے۔ آپ بھی پڑھیے!

طلاقوں میں اضافہ کیوں ہوا ہے؟

رائے عامہ کے جائزے مرتب کرنے والے اداروں گیلپ اور گیلانی فاؤنڈیشن کے 2019 کے ایک سروے کے مطابق 58 فی صد پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں طلاقوں کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

سروے میں شامل 20 فی صد افراد کا یہ بھی ماننا تھا کہ ان طلاقوں کی وجہ شادی شدہ زندگی میں سسرال کا عمل دخل ہے۔

یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ 2021-2020 میں کرونا وبا کے دوران یہ سلسلہ کم ہونے کے بجائے بڑھا ہی ہے کیوں کہ ایسا ہی رجحان دنیا بھر میں دیکھا گیا ہے جہاں کرونا کے دوران گھریلو تشدد میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو شادیاں ختم ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

جہاں کرونا وبا نے خاندانوں کو گھر کی چار دیواری میں ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع فراہم کیا وہیں پاکستانی اخبار 'ڈان' کے مطابق اس دوران خلع کی درخواستوں میں 50 یا 100 نہیں بلکہ 700 فی صد اضافہ ہوا ہے۔

خلع کے کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد کیا ظاہر کرتی ہے؟

سال 2019 میں سندھ بھر میں 632 خلع کے کیسز فائل ہوئے تھے جب کہ 2020 میں یہ تعداد بڑھ کر 5198 تک پہنچ گئی ان میں چار ہزار سے زائد کیسز صرف کراچی شہر میں رپورٹ ہوئے۔

گزشتہ برس کے پہلے 11 ماہ میں راولپنڈی کی فیملی کورٹس میں 10 ہزار سے زائد خلع، بچوں کی سر پرستی اور مالی وظیفوں کے کیسز دائر کیے گئے۔

رشتہ توڑنا آسان کام نہیں مگر رشتہ قائم رکھنا بھی یقیناً اس سے مشکل ہی ہے۔ شادی ٹوٹنے کا مطلب محض دو لوگوں کا تعلق ختم ہونا نہیں ہے اس سے اکثر بندھن میں شامل دونوں افراد کا مستقبل اور اس سے بھی زیادہ بچوں کا مستقبل متاثر ہوتا ہے۔

شادی کے دوران گھریلو ناچاقیاں اور تلخیاں ہوں یا پھر ماں یا باپ کے بغیر بڑے ہونا، اس کے ذہنی اثرات بچوں کی شخصیت کو بے حد متاثر کرتے ہیں۔

ایسا کیا کیا جائے کہ شادیاں ختم ہونے کی نوبت ہی نہ آئے؟

ایسا کیا کیا جائے کہ رشتہ نہ صرف قائم رہے بلکہ اس میں بندھے کسی انسان کی حق تلفی بھی نہ ہو؟ عورت خود کو حقیر بھی نہ سمجھے اور مرد بھی خود کو ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبا ہوا نہ محسوس کرے۔

کیا کوئی خاص ترکیب ہے جس پر عمل کر کے مرد اور عورت کسی پریوں کے دیس کی کہانی کی طرح ہمیشہ خوش رہ سکیں؟

شاید یہی ہماری غلطی ہے کہ ہمارا معاشرہ شادی کو کسی پریوں کی کہانی سے تعبیر کرتا ہے۔ لڑکیاں کم عمری سے دلہن بننے کا خواب دیکھتی ہیں تو لڑکا گھر واپسی پر ایک سجی سنوری دوشیزہ کا ارمان رکھتا ہے۔

فیس بک اور انسٹاگرام کے زمانے میں شاید بات بننے کے بجائے مزید بگڑی ہی ہو۔ ایک بے عیب رفیقِ حیات کا تصور، شادی کے کئی کئی فنکشنز، ان میں لاکھوں کے ملبوسات، لاکھوں کی سجاوٹ، فوٹوگرافی، کوریوگرافی مگر جب چمک دمک کی دھول بیٹھتی ہے تو اصل زندگی 'پکچر پرفیکٹ' یا انسٹاگرام پر نمائش کرنے جیسی نہیں ہوتی۔

اصل زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے ہی رہتے ہیں۔ ملازمت کی سختیاں، مالی مسائل، بچوں کی دیکھ بھال، ایک دوسرے کے خاندانوں کی توقعات اور پھر شوہر اور بیوی کے اپنے مزاج کبھی زندگی کو خوش گوار بناتے ہیں تو کبھی مشکل۔

شادی کے وقت لڑکے یا لڑکی میں کیا خصوصیات دیکھنی چاہئیں؟

اس پر ہمارے شو 'عین مطابق' کے حالیہ پروگرام میں بات کرتے ہوئے فرحان نے پاکستانی معاشرے کا سچ ہی بتایا کہ وہ لڑکی کی خوبصورتی سے متاثر ہوئے تھے حالاں کہ اب وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ثانوی حیثیت رکھتی ہے جب کہ شادی کے 37 سال ساتھ گزارنے والے سعید کا تو یہی کہنا ہے کہ اصل میں سیرت ہی دیکھنی چاہیے۔

دوسری طرف اریبہ کا ماننا ہے کہ آپ شکل دیکھ کر شادی کریں یا بہت وقت ایک دوسرے کے ساتھ گزار کر، شادی کسی جوئے سے کم نہیں کیوں کہ جب تک ساتھ رہنا شروع نہیں کرتے کسی کو مکمل طور پر جاننا ممکن ہی نہیں ہے۔ اور کسی نے کیا خوب کہا تھا، شادی ایک پیرا شوٹ ہے، کھل گیا تو کھل گیا۔

اداکارہ جویریہ سعود کا خیال ہے کہ پاکستانی مرد عموماً یہ پسند نہیں کرتے کہ اپنی بیوی کے نام سے پہچانے جائیں۔ اس لیے ان کی اپنی یہ خواہش تھی کہ ان کا ہونے والا شوہر ان سے زیادہ مشہور ہو۔

جویریہ کے مطابق اگر لڑکا ایسا نہ بھی سوچے تو آس پاس کے لوگ اسے بار بار یہ احساس دلاتے ہیں جس سے مرد عدم تحفظ کا شکار ہوتا ہے اور پھر رشتے خراب ہوتے ہیں۔

شادی شدہ افراد سے پوچھیں تو وہ کہیں گے کہ عموماً شوہر اور بیوی میں جھگڑے معمولی باتوں پر ہی ہوتے ہیں جن کی وجہ زیادہ تر مزاجوں کا اختلاف ہے۔

ظاہر سی بات ہے دو مختلف ماحول میں پلے بڑھے لوگ جب ایک چھت کے نیچے زندگی گزاریں گے تو یہ غیر متوقع نہیں۔ ایک دوسرے کے مزاج کو اور پسند نا پسند کو سمجھ کر جھگڑوں تک پہنچنے کی نوبت ہی نہ آنے دینا نا ممکن نہیں۔

جویریہ اور سعود دونوں کا اس معاملے پر یہی کہنا ہے کہ جب بات بگڑ رہی ہو تو دونوں میں سے ایک کو پیچھے ہٹ جانا چاہیے تاکہ معاملہ وہیں ختم ہو جائے۔

جویریہ یہ بھی کہتی ہیں کہ اختلافات تو بہن بھائیوں حتیٰ کہ والدین سے بھی ہو جاتے ہیں۔ یہ قدرتی بات ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں بڑھاوا نہ دیا جائے۔

پیچھے ہٹنے یا معافی مانگنے میں پہل کون کرے؟

پاکستانی معاشرے میں تو یہ ذمہ داری عورت کی ہی سمجھی جاتی ہے کیوں کہ مرد کو عورت پر حاکم تصور کیا جاتا ہے اور حاکم بھلا کیسے غلط ہو سکتا ہے۔

کیا مردوں کو بھی اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے؟ نوجوان فرحان ہوں یا جہاندیدہ سعید دونوں مرد ہونے کے باوجود اس تصور کو غلط مانتے ہیں اور دونوں ہی معافی مانگنے میں پہل کو انا کا مسئلہ نہیں سمجھتے، شاید یہی ان کی شادی شدہ زندگی کی کامیابی کا راز ہے۔

شادی شدہ جوڑوں میں اکثر ایک دوسرے پر اختیار اور ملکیت کی کشمکش بھی نظر آتی ہے۔

بیوی کس سے بات کر رہی ہے؟ شوہر کسی جگہ کا کہہ کر کہیں اور تو نہیں جا رہا؟ جویریہ کے مطابق ایک دوسرے کے معمول اور سرگرمیوں پر باریک بینی سے نظر رکھنا، مرد اور عورت دونوں کی ایک دوسرے کی زندگیوں میں بے جا دخل اندازی رشتے کو کمزور کرتی ہے۔

ان کے بقول اپنے ساتھی پر اعتبار بہت ضروری ہے، ایک دوسرے کی ٹوہ لینے سے رشتے میں دراڑیں ہی پڑتی ہیں کیوں کہ اس سے انسان کے باغی ہو جانے کا خدشہ پیدا ہوتا ہے۔

شادی مضبوط بنانے والا سب سے اہم جزو کون سا ہے؟

یہ ساری باتیں اہم لیکن گھوم پھر کر دماغ پھر اسی طرف جاتا ہے کہ شادی کے بندھن کو مضبوط بنانے کے لیے بھلا کون سا جزو سب سے اہم ہے؟ محبت، دوستی، عزت یا اعتبار؟

لائف کوچ ڈاکٹر شعوانہ مفتی کے مطابق کامیاب شادی کے لیے ان تمام ہی اجزا کا ہونا ضروری ہے۔

ان کی رائے میں شادی زندگی کا ایک بہت اہم کانٹریکٹ ہے جس میں دو لوگ ایک نیا یونٹ تشکیل دیتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس نئی زندگی کے بارے میں نوجوانوں کی تربیت کے بجائے ساری توجہ شادی سے وابستہ چمک دمک اور دکھاوے پر مرکوز کر دی جاتی ہے۔

انہوں نے والدین کے کردار پر بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ والدین کو بھی اپنے وقتوں کی اقدار کا بوجھ بچوں کے کاندھوں پر نہیں ڈالنا چاہیے۔ وقت بدل رہا ہے، قدریں بدل رہی ہیں اور شادی شدہ جوڑوں کو اپنے طریقے سے زندگی گزارنے کا موقع ملنا چاہیے۔

رشتوں میں بد گمانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اعتبار کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔ توقعات پوری نہ ہونا۔ توجہ نہ ملنا جیسی شکایتیں بھی ہو سکتی ہیں۔ ضرورت یہ ہے کہ ان شکایتوں کو اس نہج تک نہ پہنچنے دیا جائے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔

فلم اسٹار سعود اور ڈاکٹر شعوانہ مفتی دونوں کا کہنا ہے کہ جب شوہر یا بیوی کو ایک دوسرے سے شکایت ہو تو ایک دوسرے کی بات سنیں۔ اسے انا کا مسئلہ نہ بنائیں، اسے اپنی ذات پر حملہ سمجھ کر جوابی حملے کے لیے تیاری نہ پکڑیں۔ اپنے ساتھی کو سنیں شاید اس وقت آپ کو اس کی بات سمجھ نہ آئے، اس لیے فوری ردِ عمل دینے سے گریز کریں۔ بہت ممکن ہے کچھ دیر بعد اس کی بات آپ کے دل پر اثر کرے۔

شادی ایک ایسا پروجیکٹ ہے جو ایک بار شروع ہونے پر خودبخود یا آٹو پر نہیں چل سکتا۔ اس رشتے کو مستقل آبیاری کی ضرورت رہتی ہے۔

ڈاکٹر شعوانہ مفتی کے مطابق غیر حقیقی توقعات رکھنے کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محظوظ ہو کر شادی شدہ زندگی کے سفر کو خوش گوار بنایا جا سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG