ایئر ایشیا کے مسافر طیارے کے ممکنہ ملبے کے ایک بڑے حصے کی زیرآب نشاندہی کے بعد اتوار کو غوطہ خوروں کو بارش اور تیز سمندری لہروں کے باعث کام میں دشواری کا سامنا ہے۔
گزشتہ اتوار انڈونیشیا سے سنگاپور جاتے ہوئے ایئرایشیا کی پرواز 8501، لاپتا ہو گئی تھی جس کے بارے میں منگل کو معلوم ہوسکا کہ یہ بحیرہ جاوا میں گر کر تباہ ہوگئی۔ اس پر عملے سمیت 162 افراد سوار تھے جن میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچا۔
ایک ہفتہ ہونے کے بعد بھی اب تک صرف 31 لاشوں کو نکالا جاسکا ہے اور حکام یہ خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ باقی 131 افراد کی لاشیں تباہ شدہ جہاز کے ڈھانچے پر نشستوں سے ہی لپٹی ہو سکتی ہیں۔
انڈونیشیا کی سرچ اینڈ ریسکیو ایجنسی کے سربراہ بامبانگ سوئلیسٹو کے مطابق اتوار کو دو غوطہ خور مشتبہ ملبے کے مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے لیکن زیرآب خراب صورتحال کی وجہ سے وہ فوراً ہی واپس پلٹ آئے۔
مسافر طیارے کے پائلٹ نے گزشتہ اتوار پرواز کے دوران ایئرٹریفک کنٹرولر سے مقررہ راستے سے چند ہزار میٹر بلند ہونے کی اجازت طلب کی تھی تاکہ وہ جہاز کو خراب موسم سے بچا سکے۔ لیکن انھیں یہ کہہ کر اجازت نہیں دی گئی کہ اس مقام پر دیگر جہاز پرواز کر رہے ہیں۔ بعد ازاں طیارے کو چار ہزار میٹر بلند ہونے کی اجازت دی گئی لیکن اس کے بعد جہاز کا رابطہ ایئر ٹریفک کنٹرول سے منقطع ہو چکا تھا۔
طیارے کی تباہی کے بارے میں تاحال کوئی مصدقہ وجہ معلوم نہیں ہوسکی ہے لیکن انڈونیشیا کے محکمہ موسمیات کے مطابق "فلائیٹ 8501 ممکنہ طور پر خراب موسم میں پھنس گئی اور اس سے نکلنا شاید اس کے لیے ناممکن ہو گیا تھا۔"
ملبے اور مسافروں کی لاشوں کی تلاش کے لیے امریکہ سمیت مختلف ممالک ان سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔