رسائی کے لنکس

اخونزادہ چٹان کا بیٹا باجوڑ سے اغوا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اطلاعات کے مطابق اخونزادہ چٹان کا دس سالہ بیٹا شاہ حسین اسکول جا رہا تھا جب نا معلوم افراد ایک کار میں آئے اور اسے اپنے ساتھ لے گئے۔

پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی اخونزادہ چٹان کے دس سالہ بیٹے کو قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی میں ان کے گھر کے قریب سے نامعلوم افراد نے اغوا کر لیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق اخونزادہ چٹان کا دس سالہ بیٹا شاہ حسین اسکول جا رہا تھا جب نا معلوم افراد ایک کار میں آئے اور اسے اپنے ساتھ لے گئے۔

مقامی انتظامیہ نے ایجنسی میں داخلے اور باہر نکلنے کے تمام راستوں کی ناکہ بندی کر کے اخونزادہ چٹان کے بیٹے کی تلاش شروع کر رکھی ہے۔

سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اغوا کے اس واقعہ پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے باجوڑ ایجنسی کی انتظامیہ سے اخونزادہ چٹان کے بیٹے کی جلد بازیابی اور اس کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔

اخونزادہ چٹان پاکستان پیپلز پارٹی کے فاٹا چیپٹر کے صدر بھی ہیں۔

اس سال مئی میں ان کی گاڑیوں کے قافلے پر باجوڑ ایجنسی میں حملہ ہوا تھا، مگر وہ اس میں محفوظ رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں طالبان کی طرف سے دھمکیاں ملتی رہی ہیں۔

ابھی تک کسی نے اس اغوا کی ذمہ داری قبول کی ہے اور نہ اس کے محرکات سامنے آئے ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بھی آئی جی ایف سی کو ہدایت کی ہے کہ وہ مغوی بچے کی بازیابی کے لیے انتظامیہ سے بھرپور تعاون کریں۔

واضح رہے کہ اس سے قبل پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی حیدر گیلانی کو مئی 2013ء میں اغوا کیا گیا تھا جبکہ مقتول گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے صاحبزادے شہباز تاثیر کو اگست 2011ء میں اغوا کیا گیا۔

ان دونوں کو تاحال بازیاب نہیں کرایا جا سکا ہے۔

باجوڑ ایجنسی میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان سمیت کئی شدت پسند گروپ سرگرم رہے ہیں تاہم پاکستانی فوج کا دعویٰ ہے کہ علاقے میں کی جانے والی کارروائیوں کے بعد باجوڑ سے شدت پسندوں کا صفایا کیا جا چکا ہے۔

اُدھر پاکستانی فوج کے مطابق پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے قریب خیبر ایجنسی کے علاقے راجگال میں پیر کو کی گئی فضائی کارروائیوں میں کم از کم 15 شدت پسند مارے گئے۔

جس علاقے میں یہ کارروائی کی گئی وہاں تک میڈیا کے نمائندوں کو رسائی حاصل نہیں اس لیے ہلاکتوں کی درست تعداد اور مارے جانے والوں کی شناخت کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

XS
SM
MD
LG