افغانستان میں رواں سال تشدد پر مبنی کارروائیوں کے دوران شہری ہلاکتوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا ہے اور اب تک کی سامنے آنے والی مختلف رپورٹس میں اس جانی نقصان کی ذمہ داری تنازع کے تمام فریقین پر عائد کی جا رہی ہے۔
تازہ ترین مہلک واقعات جمعہ کو مشرقی افغان صوبے پکتیا میں پیش آئے جہاں کم از کم دس افراد جان کی بازی ہار گئے۔
حکام کے مطابق ضلع چمکنی میں ایک ہی خاندان کے پانچ افراد اس وقت موت کا شکار ہوئے جب ان کی گاڑی سڑک میں نصب ایک بم کی زد میں آکر تباہ ہوگئی۔ اسی ضلع میں ایک ٹریکٹر بھی ایسے ہی واقعے میں نشانہ بنا اور پانچ افراد ہلاک ہوگئے۔
طالبان عسکریت پسند دیسی ساختہ بم سڑک میں نصب کر کے سکیورٹی فورسز کے قافلوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں لیکن اکثر واقعات میں عام شہری بھی ان کی زد میں آ جاتے ہیں۔
گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کے معاون مشن برائے افغانستان کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں پانچ ہزار سے زائد شہری ہلاک و زخمی ہوئے جو کہ سال کے اس عرصے میں ہونے والا ریکارڈ شہری جانی نقصان ہے۔
زیادہ تر شہری خود کش بم دھماکوں، بارودی سرنگوں کے دھماکوں، سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان چھڑپوں اور دیگر مسلح گروہوں کے تصادم کی زد میں آکر مارے گئے۔
انسانی حقوق کی ایک غیر سرکاری تنظیم "افغانستان ہیومن رائٹس آرگنائزیشن" کے سربراہ لعل گل لعل نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں موجودہ صورتحال کو انتہائی افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ امن قائم نہ ہونے کا سب سے زیادہ نقصان عام شہریوں کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
"لڑائی تو بدبختی ہے، لوگ اس میں مرتے جا رہے ہیں، زخمی ہوں گے، بے گھر ہوں اور تمام چیزوں کے لیے لڑائی بہت بری ہے۔ یہ (لڑائی) کبھی بھی ترقی کی طرف نہیں لے جا سکے گی۔"
جنگ سے تباہ حال اس ملک کے جہاں لاکھوں لوگ دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے وہیں ایک بڑی تعداد اندرون ملک بھی نقل مکانی کر چکی ہے۔ حالیہ مہیںوں میں طالبان نے مختلف علاقوں پر اپنے اثرورسوخ کو بڑھایا اور ساتھ ہی شدت پسند گروپ داعش نے بھی اپنی کارروائیوں کو تیز کیا تھا۔
افغان فورسز بین الاقوامی افواج کی معاونت سے طالبان اور داعش کے خلاف بھرپور کارروائیاں بھی کر رہی ہے۔
ہلاک و زخمی ہونے والوں کے علاوہ بے گھر ہونے والوں میں ایک بڑی تعداد بچوں کی بھی ہے۔
لعل گل لعل کہتے ہیں کہ نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کے بچوں کی تعلیم کا حرج ان کے مستقبل کو تباہ کرنے کا باعث بن سکتا ہے اور ان کے بقول امن اور مذاکرات کے ذریعے جتنا جلد امن بحال کیا جائے گا اتنا ہی افغانوں کے لیے بہتر ہوگا۔