رسائی کے لنکس

ترکیہ میں بلدیاتی انتخابات؛ کیا ایردوان کی جماعت انقرہ اور استنبول کا کنٹرول حاصل کر سکے گی؟


استنبول میں امیدواروں کی فہرست اتنی لمبی ہے کہ ووٹرز کو تین فٹ لمبے بیلٹ پیپر کے ذریعے 49 امیدواروں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا تھا۔
استنبول میں امیدواروں کی فہرست اتنی لمبی ہے کہ ووٹرز کو تین فٹ لمبے بیلٹ پیپر کے ذریعے 49 امیدواروں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا تھا۔

  • ترکیہ میں پانچ سال بعد بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں۔
  • دارالحکومت انقرہ اور معاشی مرکز استنبول میں اصل مقابلے کا امکان ہے۔
  • بلدیاتی انتخابات میں دس لاکھ ووٹرز نے پہلی بار حق رائے دہی استعمال کیا۔

ترکیہ میں اتوار کو بلدیاتی انتخابات کے لیے ووٹرز نے ووٹ ڈالے ہیں جن کے نتائج کی بنیاد پر یہ طے ہو گا کہ صدر رجب طیب ایردوان کی جماعت اے کے پارٹی کو دارالحکومت انقرہ اور ملک کے معاشی مرکزاستنبول سمیت دیگر اہم شہروں میں بلدیاتی حکومت بنانے میں کامیابی ملتی ہے یا نہیں۔

خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق یہ انتخابات صدر ایردوان کی مقبولیت جانچنے کا بھی ایک موقع ہوں گے۔ ان اہم شہروں پر گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کو کامیابی ملی تھی۔ اے کے پارٹی ان شہروں پر کنٹرول واپس حاصل کرنا چاہتی ہے جو اس نے پانچ سال قبل کھو دیا تھا۔

ملک کے معاشی مرکز استنبول اور دارالحکومت انقرہ میں2019 م ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ایردوان کی جماعت کے امیدوار ہار گئے تھے۔

ستر سالہ ترک صدر نے استنبول پر نظریں جمائی ہوئی ہیں۔ ایسا شہر جو ایک کروڑ 60 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور جہاں ایردوان نہ صرف پیدا ہوئے بلکہ انہوں نے اپنے سیاسی کریئر کا آغاز بھی 1994 میں بطور میئر یہی سے کیا تھا۔

ایردوان کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے ایک سال بعد ہونے والے بلدیاتی انتخابات ایک نئے دور کا آغاز کریں گے۔

ان انتخابات میں لگ بھگ چھ کروڑ 10 لاکھ ووٹرز حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل تھے جن میں دس لاکھ سے زائد پہلی بار ووٹ ڈالنے والے بھی شامل ہیں۔

خلیجی نشریاتی ادارے ‘الجزیرہ’ کے مطابق پورے ملک سے ووٹرز 23 ہزار سے زائد عہدیدار منتخب کریں گے تاہم زیادہ اہمیت ترکیہ کے 30 بڑے شہروں کو حاصل ہے۔

استنبول جو کہ ملک کا سب سے گنجان آباد شہر ہے یہاں 2019 میں اپوزیشن کی فتح ایردوان کے لیے ایک بڑا دھچکا تھی۔

استنبول سے ری پبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) کی پانچ سال قبل فتح نے ایردوان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے) کی 25 سالہ حاکمیت کو ختم کر دیا تھا۔

سی ایچ پی کے نائب چیئرمین الہان ازگل کا کہنا ہے کہ انتخابات میں استنبول کی ایک علامتی اہمیت ہے اور اب ملک کے چوتھے بڑے شہر برسا کے علاوہ تمام بڑے شہروں میں سی ایچ پی کے میئرز ہیں۔

دارالحکومت انقرہ اور انطالیہ میں بھی وہی نتائج آئے تھے جو دوہزار انیس میں استنبول کے تھے

ان انتخابات میں سی ایچ پی کو پانچ بڑے شہروں میں سے چار میں کنٹرول حاصل ہوا تھا۔

استنبول میں ایردوان کی فتح سے سی ایچ پی کے میئر اکرم امام اغلو کا دورِ اقتدار ختم ہو جائے گا جو کہ مستقبل میں صدارت کے لئے ایردوان کے مضبوط حریف تصور کیے جاتے ہیں۔

استنبول میں مقابلہ اکرم اور اے کے پارٹی کے امیدوار مراد کرم کے درمیان ہے جو کہ سابق وزیر برائے ماحولیات ہیں۔

ان انتخابات میں 35 سیاسی جماعتوں کے امیدوار حصہ لے رہے ہیں جب کہ استنبول میں امیدواروں کی فہرست اتنی لمبی تھی کہ ووٹرز کو تین فٹ لمبے بیلٹ پیپر کے ذریعے 49 امیدواروں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا تھا۔

XS
SM
MD
LG