ہندو پاک کے درمیان تعلقات کی مثال کبھی تولہ اور کبھی ماشہ کی ہے۔ لیکن تخلیق کار ہمیشہ سے اس بات کے خواہش مند رہے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان خوش گوار تعلقات قائم ہوں۔ گذشتہ سال جب تعلقات میں زیادہ تلخی آئی تو کچھ عرصے بعد بالی وڈ کے شہنشاہ امیتابھ بچن نے اپنے بلاگ کے ذریعہ یہ کوشش کی کہ دونوں ملکوں کے فن کاروں کو قریب لایا جائے۔ اس سلسلے میں ان کی آواز پر بھارت کے بڑے میڈیا گروپ ٹائمز آف انڈیا اور پاکستان کے جنگ نے صاد کہی اور امیتابھ بچن نے دوستی کا ترانہ گاتے ہوئے کہا:
دکھائی دیتے ہیں دور تک اب بھی سائے کوئی
مگر بلانے سے وقت پھر لوٹ کر نہ آئے کوئی
چلو نا پھر سے بچھائیں دریاں، بجائیں ڈھولک
لگا کے مہندی پتنگ اڑائیں محلے والے
فلک تو ساجھا ہے
سُر بلاتے ہیں جب تم ادھر نہیں آتے
نظر میں رہتے ہو جب تم نظر نہیں آتے
اور پھر آگے چل کر امیتابھ بچن کہتے ہیں:
ان لکیرو ں کو زمین پرہی رہنے دو دلوں پہ مت اتارو
ان کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے مشہور شاعر گلزار نے بھی ایک نظم لکھی:
آنکھوں کو ویزہ نہیں لگتا ہے
سپنوں کی سرحد ہوتی نہیں
بند آنکھوں سے میں روز سرحد پار چلا جاتا ہوں
مہندی حسن سے سنتا ہوں
ان کی آواز کو چوٹ لگی ہے
سوکھ گئے ہیں پھول کتابوں میں
یار فراز بھی بچھڑ گئے ہیں
شاید ملیں وہ خوابوں میں
بند آنکھوں سے میں سرحد پار چلا جاتا ہوں
سپنو ں کی سرحد ہوتی نہیں
آنکھوں کو ویزہ نہیں لگتا
اور اسی امن کی آشا میں نئی دہلی، ممبئی، حیدر آباد، لکھنؤ، بنگلور وغیرہ میں ثقافتی پروگراموں کا انعقاد کیا گیا جن میں ہند و پاک کے نام ور فن کاروں نے شرکت کی اور اپنے فن کا مظاہرہ کر کے سامعین کے دل و دماغ جیت لیے۔ لیکن اب یہ کہنا مشکل ہے کہ امن کی آشا کتنی دور جا پائے گی۔
جہاں تک ادیبوں اور شاعروں کا سوال ہے، وہ بہت پہلے سے دونوں ملکوں کے خوش گوار تعلقات کے لیے کام کرتے رہے ہیں اس سلسلے میں مشاعروں نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ سنہ 1952ء میں کراچی کے مشاعرے میں جب جگر مراد آبادی نے یہ غزل پڑھی تھی:
ان کاجو کام ہے وہ اہلِ سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
تو ان کا مقصد بھی یہی تھا اس دور میں ہندو پاک کے نامور شعرا ایک دوسرے کے ملکوں میں مشاعروں میں جاتے تھے اور اپنا کلام سناکر سامعین کا دل موہ لیتے تھے۔ جگن ناتھ آزاد جنہوں نے پاکستان کا پہلا قومی ترانہ لکھا تھا، وہ جب بھی پاکستان کے کسی مشاعرے میں جاتے تھے تو ان سے اس غزل کی فرمائش ہوتی تھی اور وہ اسے بچشم نم سنایا کرتے تھے:
میں اپنے گھر میں آیا ہوں مگر انداز تو دیکھو
میں اپنے آپ کو مانندِ مہماں لے کے آیا ہوں
بھارت میں شنکر شاد مشاعرے کی ایک طویل روایت تھی جسے ایک بڑے صنعت کار نے قائم کیا تھا۔ سنہ 1990تک پابندی سے یہ مشاعرہ ہوا کرتا تھا اور اس میں پاکستان کے تمام بڑے شعرا شرکت کرتے تھے۔
مگر سنہ 1971ء کی جنگ کے بعد ایک جمود آگیا تب سنہ 1974میں رئیس امروہوی نے ایک قطعہ لکھا:
تا چند ہندو پاک میں یہ بندشیں رئیس
ابوابِ کہنہ بند، درِ تازہ کھولیے
جی چاہتا ہے سرحدِ ہندوستاں پہ ہم
یوں کھٹکھٹائیں زور سے، ’دروازہ کھولیے‘
اس کے بعد ادیبوں اور شاعروں نے ہند پاک تعلقات پر متعدد نظمیں کہیں جو دونوں ملکوں کے اخبار و جرائد میں شائع ہوتی رہیں۔
شنکر شاد مشاعرے کے انہدام کے بعد بھی دونوں ملکوں میں مشاعروں اور سیمناروں کا سلسلہ جاری رہاجس میں سربرآوردہ شعرا اور قلم کار اپنے ملک کے سفیر کے طور پر شرکت کرتے رہے۔
اب بھی ایسے مشاعرے ہوتے ہیں جس میں پاکستان کے شعرا شرکت کرتے ہیں۔ مرحوم احمد فراز نے تو ہندوستان کے تقریباً ہر بڑے شہر کے مشاعرے میں شرکت کی تھی اور انہوں نے بھی ہند پاک خوش گوار تعلقات کی خواہش میں ایک نظم لکھی تھی۔ جو وہ ہر مشاعرے میں سنایا کرتے تھے اور اس کا آخری مصرع یہ تھا:
میں اپنا ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لیے
لیکن اب احمد فراز ہی نہیں ہیں شاید اسی لیے گلزار کو کہنا پڑ رہا ہے:
یار فراز بھی بچھڑ گئے ہیں
شاید ملیں وہ خوابوں میں
دونوں ملکوں کے شاعر، ادیب، قلم کار، فن کار، تخلیق کار یہی خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں، ہو سکتا ہے کل اس کی تعبیر سامنے آئے۔
مقبول ترین
1