رسائی کے لنکس

بحیرہ جنوبی چین میں کشیدگی، بیجنگ میں آسیان کا اجلاس


چین کے وزیر دفاع نے اپنے افتتاحی بیان میں ’’علاقائی امن و استحکام کے تحفظ‘‘ کے لیے کوششیں تیز کرنے کا مطالبہ کیا مگر بحیرہ جنوبی چین کے مسئلے پر کوئی بات نہیں کی۔

چین نے جمعہ کو جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں کی 10 رکنی تنظیم "آسیان" کے وزرائے دفاع کے بیجنگ میں اجلاس کا افتتاح کیا۔ یہ اجلاس ایسے وقت ہو رہا ہے جب بحیرہ جنوبی چین میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے مگر چین نے اس اجلاس میں اس مسئلے پر بات کرنے سے گریز کیا ہے۔

چین کے وزیر دفاع نے اپنے افتتاحی بیان میں ’’علاقائی امن و استحکام کے تحفظ‘‘ کے لیے کوششیں تیز کرنے کا مطالبہ کیا مگر بحیرہ جنوبی چین کے مسئلے پر کوئی بات نہیں کی۔

آسیان کے چار رکن ممالک بحیرہ جنوبی چین کے پانیوں اور جزائر پر ملکیت کے دعویدار ہیں جن پر چین کا بھی دعویٰ ہے مگر چین عموماً ایسے اجلاسوں میں ان مسائل پر بات نہیں کرتا۔

چین کے وزیر دفاع چینگ وانچوان نے بھی اپنے خطاب میں بحیرہ جنوبی چین کے تنازع پر بات کیے بغیر کہا کہ علاقے کے ممالک کو اپنے تعلقات بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیئے اور دہشت گردی جیسے سکیورٹی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کرنی چاہیئیں۔

بیجنگ بحیرہ جنوبی چین میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کئی سال سے آسیان کے ذریعے ایک ضابطہ اخلاق مرتب کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاہم اس دوران اس نے متنازع پانیوں اور جزائر پر ملکیت کے دعوؤں کے دفاع میں زیادہ جارحانہ رویہ اخیتار کیا ہے۔

2013 سے چین نے بحیرہ جنوبی چین میں سمندری چٹانوں پر مصنوعی جزائر کی تعمیر کا کام تیز کر رکھا ہے اور بظاہر علاقے پر اپنی ملکیت کے دعوؤں کو تقویت دینے کے لیے ان پر عمارتیں اور فضائی پٹیاں تعمیر کر رہا ہے۔

توقع کی جا رہی ہے کہ امریکی بحریہ بحیرہ جنوبی چین میں بیجنگ کے دعوؤں کو براہ راست چیلنج کرے گی۔

امریکی بحریہ سے منسلک ہفت نامے ’نیوی ٹائمز‘ نے پینٹاگان حکام کے حوالے سے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ امریکی بحریہ کو جلد ہی چین کے مصنوعی جزائر کے قریب 21 کلومیٹر کی علاقائی حد کے اندر بحری جہاز بھیجنے کی اجازت مل سکتی ہے۔

آسیان کے رکن فلپائن نے اس اقدام کی حمایت کی ہے۔

علاقائی حدود کے اندر بحری جہاز بھیجنے کا مطلب ہے کہ امریکہ چین کے علاقائی دعوؤں کو 2012 کے بعد سے پہلی مرتبہ چیلنج کرے گا۔ امریکہ کا مؤقف رہا ہے کہ جزائر کی بحالی اور ان پر تعمیرات سے ملکیت کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا۔

امریکہ اور اس کے اتحادیوں بشمول فلپائن نے کہا ہے کہ علاقے میں بڑھتی ہوئی عسکریت کے تناظر میں نئے مصنوعی جزائر سے علاقے کے استحکام کو خطرہ ہے۔

چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چن ینگ نے بدھ کو کہا کہ مصنوعی جزائر عوامی فلاح کے لیے بنائے گئے ہیں اور ان کا فوجی سرگرمیوں سے ’’کوئی تعلق نہیں۔‘‘

چین کا آسیان کے ایک اور رکن ویتنام کے ساتھ بھی پیراسیل جزائر کی ملکیت پر تنازع جاری ہے۔ گزشتہ سال چین نے متنازع پانیوں میں تیل نکالنے کا کام شروع کیا تھا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان محاذ آرائی ہوئی تھی۔

جمعرات کو ویتنام نے چین پر الزام لگایا کہ اس نے متنازع جزائر کے قریب اس کی ایک ماہی گیر کشتی کو غرقاب کر دیا تاہم اس واقعے میں چین کے کسی سرکاری جہاز کے ملوث ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے مگر بیجنگ کی سرگرمیوں سے چین کے ماہی گیروں کو کافی شہہ ملی ہے۔

چین کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ بیجنگ میں آسیان کا اجلاس ’’سٹریٹجک اعتماد اور عملی تعاون کو فروغ‘‘ دے گا۔

اس غیر رسمی اجلاس کے بعد شیانگ شن فورم منعقد کیا جائے گا جس میں مبصرین کے بقول فوجی رہنما اور دنیا بھر سے دیگر افراد بحرالکاہل کے ایشیائی علاقوں میں سکیورٹی، بحری مسائل اور انسداد دہشت گردی پر بحث کریں گے۔

XS
SM
MD
LG