رسائی کے لنکس

مختلف ملکوں کی سابق ’اے ایم یو‘ طلبا یونینوں کا شرپسندوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ


سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، آسٹریلیا، امریکہ، جنوبی کوریا اور نیوزی لینڈ میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق طلبا کی انجمنوں نے یونیورسٹی کا ماحول خراب کرنے کے لیے دائیں بازو کی ہندو تنظیموں کے کارکنوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

متحدہ عرب امارات کی انجمن نے بھارتی قونصل خانے کے توسط سے صدر جمہوریہ کو میمورنڈم پیش کیا اور الزام عاید کیا کہ مسلح شرپسندوں نے سابق نائب صدر حامد انصاری پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا۔ جہاں یہ ہنگامہ ہوا وہاں سے چند میٹر کے فاصلے پر حامد انصاری ٹھہرے تھے اور اس روز ان کو طلبا یونین کی جانب سے تاحیات رکنیت تفویض کی جانے والی تھی۔

متحدہ عرب امارات کے فورم کے صدر قطب الرحمن نے کہا کہ پورے مشرق وسطیٰ کی انجمنوں نے بھی صدر کو میمورنڈم دیا ہے۔

ادھر نئی دہلی میں نو تشکیل شدہ اقلیتی یونیورسٹیوں کی انجمن ’مائنارٹی یونیورسٹیز ایلومنائی فرنٹ‘ نے بھی ایک نیوز کانفرنس کرکے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

فورم کے کنوینر ڈاکٹر بصیر احمد خاں نے جو کہ اندراگاندھی اوپن یونیورسٹی کے سابق پرو وائس چانسلر اور طلبا یونین کے سابق صدر بھی ہیں، وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ علیگڑھ کے کلکٹر نے طلبا پر قومی سلامتی ایکٹ لگانے کی دھمکی دی ہے، جبکہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ پہلے ہی طلبہ کو سبق سکھانے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ انھوں نے اس پورے معاملے کو یونیورسٹی کے خلاف ایک بڑی سازش قرار دیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ اگر علیگڑھ کے طلبا کی گرفتاری ہوتی ہے تو پھر ہنگامہ ہو سکتا ہے؛ یونیورسٹی بند ہو سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ پہلے کہا جاتا تھا کہ مدرسے دہشت گردی کے اڈے ہیں جب وہ بات غلط نکلی ہے تو ایسے اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ چونکہ یہاں سے انجینئر، ڈاکٹر اور سائنس داں وغیرہ پیدا ہوتے ہیں، لہٰذا ان کو برباد کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔

فرنٹ کے ایک رکن اور طلبا یونین کے سابق صدر عرفان اللہ خان نے کہا کہ یہ سب کچھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کا اقلیتی کردار ختم کرنے کی سازش ہے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ جن شرپسندوں نے حملہ کیا اور جن پولیس والوں نے لاٹھی چارج کیا ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

انھوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے جو وہاں جائے اور حالات کا جائزہ لے کر پارلیمنٹ میں اپنی رپورٹ پیش کرے۔ عرفان اللہ خان نے کہا کہ مسلم یونیورسٹی کو بدنام کرنے کے لیے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے۔

دریں اثنا، طلبا نے جو کہ کئی دنوں سے بے مدت دھرنے پر بیٹھے ہیں، مرکزی اور ریاستی حکومت سے ہندو جاگرن منچ اور ہندو یووا واہنی کے کارکنوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے اس بارے میں مکتوب ارسال کیے ہیں۔

اتر پردیش کے بہرائچ سے بی جے پی کی رکن پارلیمنٹ ساوتری بائی پھولے نے محمد علی جناح کو ایک عظیم شخص قرار دیا اور کہا کہ انھوں نے ملک کی آزادی کی جنگ لڑی تھی۔ ان کی تصویر بھارتی پارلیمنٹ کی دیوار پر آویزاں ہے۔ جہاں بھی ان کی تصویر کی ضرورت ہو وہاں ہونی چاہیے۔ ان کو احترام کے ساتھ یاد کیا جانا چاہیے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ تنازعہ اس لیے کھڑا کیا گیا ہے تاکہ دلتوں کے مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹائی جا سکے۔

اسی دوران ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے کہا کہ محمد علی جناح کی تصویر پر تنازعے سے بھارت میں مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف بڑھتی عدم رواداری اور تعصب کا پتا چلتا ہے۔

خیال رہے کہ علیگڑھ سے بی جے پی ایم پی نے یونین ہال سے جناح کی تصویر ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے جس پر تنازعہ جاری ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG