رسائی کے لنکس

قندیل بلوچ کا کردار پھر زندہ ہوگا


سوشل میڈیا پر اپنے متنازع بیانات کے حوالے سے شہرت پانے والی اداکارہ قندیل بلوچ پر جلد ایک ڈرامہ ’باغی‘ پیش ہونے والا ہے۔ ڈرامے کی مصنفہ شازیہ خان نے ’وائس آف امریکہ‘ سے قندیل بلوچ کی شخصیت سے متعلق خصوصی گفتگو کی اور بہت سے پہلوؤں کو اجاگر کیا۔

قندیل بلوچ۔۔ یہ نام پاکستان میڈیا اور سوشل میڈیا دونوں پر اچانک ابھرا، راتوں رات شہ سرخیوں کی زینت بنتا چلا گیا اور پھر اچانک ہی ایک روز اس نام کے قصے تمام ہوگئے۔

قندیل بلوچ کسی کی نظر میں متنازع رہیں، کسی نے انہیں ہمدردی کی نگاہ سے دیکھا تو کچھ اب تک انہیں نہیں بھولے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نجی ٹی وی چینل ’اردو ۔ون‘ قندیل بلوچ کی زندگی پر ایک سیریل پیش کرنے والا ہے جس کا نام ہے ’باغی‘۔

مزاحیہ ٹی وی شو ’ہم سب امید سے ہیں‘ سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی اداکارہ صبا قمر ’باغی‘ میں قندیل بلوچ کا کردار ادا کریں گی، جبکہ اس ڈرامے کی مصنفہ شازیہ خان ہیں۔

شازیہ خان نے پچھلے ہفتے وائس آف امریکہ کو ایک خصوصی انٹرویو دیا۔ اپنے قارئین کی دلچسپی کے لئے ہم یہ گفتگو ذیل میں پیش کر رہے ہیں:

آپ نے قندیل بلوچ پر ہی قلم اٹھانے کو کیوں ترجیح دی؟ کیا وہ ڈرامے کے ذریعے قندیل کی تعریف میں کچھ کہنا چاہتی ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا: ’’میں نے یہ ڈرامہ قندیل بلوچ تعریف یا تعظیم کے لئے نہیں لکھا؛ بلکہ، میں نے ایک سچ کا احاطہ کیا ہے اور یہ سچ کیا ہے، اس کا راز اسکرین پر ہی کھلے گا۔‘‘

ڈرامہ نگاری کے حوالے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں شازیہ خان کا کہنا تھا ’’مجھے یہ بات کہنے میں قطعاً کوئی عار نہیں کہ ڈرامہ لکھنا مجھے کبھی منظور ہی نہیں تھا؛ کیوں کہ اس میں آپ کیا اپنی تخلیق، آپ کا اپنا اسٹائل کہیں گُم ہوجاتا ہے،جبکہ کمرشل پہلو تحریر پر حاوی ہوجاتا ہے۔ اس بات سے عمیرہ احمد بھی واقف تھیں۔ لیکن، نہ جانے کیوں انہوں نے مجھ سے اصرار کیا کہ ’باغی‘ میں ہی قلم اٹھاؤں گی۔ یہ ان کی محبت تھی بس یہی محبت میری مجبوری بن گئی۔ میں نے قندیل کو ضبط تحریر میں لانے کی کوشش کی ہے۔‘‘

شازیہ مزید کہتی ہیںـ’’قندیل بلوچ کا موضوع بہت حساس ہے۔ اس پر لکھنے کے لئے بہت گہری تحقیق یا ریسرچ کرنا پڑی۔ اس کہانی میں کہیں کہیں کچھ سیچوایشنز حقیقت سے ہٹ کر بھی شامل کی گئیں ہیں۔ ان کے بغیر بات واضح نہیں ہوسکتی تھی اس لئے ایسا کرنا پڑا۔‘‘

اُن کے الفاظ میں، ’’میں نے ڈیرھ ماہ میں اسکرپٹ مکمل کیا اور عمیر احمد کے حوالے کر دیا۔ عمیرہ احمد افسانہ اور ڈرامہ نگاری کا بہت بڑا نام ہیں۔ وہ درجنوں کتابوں کی مصنفہ ہیں، متعدد ڈرامہ ان کے کریڈیٹ پر ہیں۔ لہذا، میرے لئے یہی بہت تھا کہ اسکرپٹ پر ان کی طرف سے بہت کم اعتراض آیا۔ وہ جس طرح کا اسکرین پلے ڈسکس کرتی تھیں میں اسی کو اسکرپٹ میں سموتی چلی گئی۔وہ ’او کے‘ کرتیں تو میرے لئے یہ بڑی ایچوئمنٹ ہوتی تھی۔‘‘

قندیل بلوچ پر ڈرامہ بننے کی خبر سوشل میڈیا پر آئی تو ہر طرف سے کچھ نہ کچھ کہا جانے لگا۔ سچ، جھوٹ، الزامات، تنقید اور جانے کیا کیا۔ یہاں تک کہ سوشل میڈیا دو گروپس میں بٹ گیا۔ ایک گروپ کے لوگوں کا رد عمل کچھ اس طرح کا تھا کہ ’کیا واقعی قندیل بلوچ ایسی شخصیت تھی کہ اس پر ڈرامہ تیار کیا جاتا؟ اس سے بڑی بڑی شخصیات موجود تھیں جن کی زندگی پر بہت کچھ لکھا جاسکتا تھا۔ لیکن قندیل کو ہی کیوں چنا گیا؟ … ایک طرف تو عمیرہ نے ’ایک تھی مریم‘ جیسی فلمز پر کام کیا اور دوسری طرف اُنہی کے پلیٹ فارم سے ’باغی‘ جیسا بولڈ اسکرپٹ لکھا جانا لوگوں کے لیے بہت حیران کن تھا۔‘‘

دوسری جانب، دوسرا گروپ اس خیال کا حامل تھا کہ’’قندیل ایک بے باک کردار تھا جس نے جاتے جاتے اس معاشرے کے دہرے کردار کو سامنے لاکر بہت سے سوال اُٹھائے، اسی کی پاداش میں اُسے دنیا سے جانا پڑا۔‘‘

بقول شازیہ خان ’باغی‘ قندیل بلوچ کی بائیو پک سوانحی خاکہ نہیں بلکہ قندیل بلوچ جیسی لڑکیوں کے لیے ان کی زندگی کا ایک ڈرافٹ ہے… جس میں پیغام دیا گیا ہے کہ ہر انسان کے لیے زندگی میں صحیح راستے کا چناؤ بہت اہم ہے۔ زندگی میں آسان لیکن بُرے راستے کا چناؤ آپ کو کم وقت میں کامیاب تو بناسکتا ہے۔ لیکن برے کام کا انجام صرف برُا ہوتا ہے۔

اس ڈرامے کی اصل روح بھی یہی ہے کہ باقی ’قندیلوں‘ کو بجھنے سے بچایا جا سکے۔ انہیں صحیح اور غلط راستے کی پہچان کروائی جا سکے۔۔۔اور ایسا صرف تبھی ممکن ہے جب ایسے Taboosپر کھل کر بات کی جائے۔ گھٹن زدہ معاشروں میں کبھی کھلی اور بھرپور آوازیں پیدا نہیں کی جا سکتیں۔ وقت بدلنے کے ساتھ ہمیں اپنے لہجوں اور آوازوں کی شدت کو بدلنے اور ان کو سہنے کی ضرورت ہے۔ کب تک روتی ہوئی عورت کی کہانی اس مردانہ معاشرے کو تسکین دیتی رہے گی۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ ’’ہم کسی بھی عورت پر بہت آسانی سے انگلی اٹھاتے ہیں۔ لیکن اُن حالات کو بھول جاتے ہیں جو اس کی زندگی سے وابستہ تھے ۔اگر فوزیہ عظیم یا اس جیسی بہت ساری لڑکیاں ایسے حالات کا شکار ہو کر غلط راستہ اختیار کر بیٹھیں تو ان میں درپردہ کردار مردوں کا ہی ہوتا ہے۔‘‘

اُن کے الفاظ میں’’فوزیہ عظیم کے باپ، بھائی یا شوہر نے عورت کے کردار کو ’قندیل بلوچ‘ کا نام دینے پر کس حد تک مجبور کیا، اصل سوال یہ ہے؟… 70 فیصد عورتیں برُی نہیں ہوتیں۔ لیکن، ان کے اردگرد موجود رشتے یا معاشرے میں موجود مختلف لوگ یا حالات انہیں بُرا بناتے ہیں۔‘‘

لیکن، یہاں عورت کا اپنا بھی ایک پختہ کردار ہونا بہت ضروری ہے۔ کیسے بھی برُے حالات ہوں وقت کے آگے ہتھیار مت ڈالیں یقیناً فتح آپ کی ہوگی… باقی باتیں اور تنقید سیریل دیکھنے کے بعد لیکن ’تنقید برائے تنقید نہیں‘ بلکہ’ تنقید برائے تعمیر‘ کے لیے قلم اٹھائیے گا۔ جواب ضرور ملے گا۔‘‘

XS
SM
MD
LG