رسائی کے لنکس

'پیراڈائز پیپرز کے انکشافات طاقت کے ایوانوں پر ضرب ہے'


سابق وزیراعظم شوکت عزیز (فائل فوٹو)
سابق وزیراعظم شوکت عزیز (فائل فوٹو)

پاناما لیکس کے بعد پیراڈائز پیپرز کے نام سے درجنوں اہم بین الاقوامی شخصیات اور بڑی کمپنیوں کے ناموں کا انکشاف کیا گیا ہے جنہوں نے ٹیکس بچانے کے لیے بیرون ملک کمپنیوں میں سرمایہ کاری اور اثاثے بنا رکھے تھے۔

ان میں کئی ایک پاکستانیوں کے بھی نام شامل ہیں لیکن فی الوقت جن نمایاں پاکستانی شخصیات کا نام سامنے آیا ہے ان میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز اور نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ کے سابق چیئرمین ایاز خان نیازی شامل ہیں۔

شوکت عزیز کے بارے میں پیراڈائز پیپرز میں انکشاف کیا گیا کہ انھوں نے انٹارکٹک ٹرسٹ کے نام سے ایک کمپنی امریکہ میں بھی بنائی تھی جس میں ان کے اہل خانہ کو مالکان ظاہر کیا گیا تھا۔

وہ 1999ء میں پاکستان کے وزیر خزانہ مقرر کیے گئے تھے جب کہ بعد ازاں 2004ء سے 2007ء تک ملک کے وزیراعظم رہے۔ انھوں نے 2003ء سے 2006ء کے درمیان بطور رکن قومی اسمبلی اپنے مالی گوشواروں میں اس کمپنی کو ظاہر نہیں کیا تھا۔

پیراڈائرز پیپرز منکشف کرنے والے بین الاقوامی صحافیوں کی تنظیم کے مطابق شوکت عزیز کے وکیل نے انھیں بتایا کہ قانونی طور پر وہ اس ٹرسٹ کو پاکستان میں ظاہر کرنے کے پابند نہیں تھے اور شوکت عزیز نے امریکہ میں اس وقت لاگو تمام ضروری ٹیکسز ادا کیے۔

دوسرا بڑا نام ایاز خان نیازی کا ہے جو برٹش ورجن آئی لینڈز میں تین آف شور کمپنیوں سے وابستہ رہے۔

گزشتہ سال اپریل میں جب پاناما پیپرز کے نام سے پہلی مرتبہ آف شور کمپنیاں رکھنے والی شخصیات کا نام سامنے آیا تھا تو اس میں بھی سیکڑوں پاکستانیوں کے ناموں کا انکشاف کیا گیا جن میں سب سے زیادہ قابل ذکر اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے تینوں بچوں کے نام تھے۔

نواز شریف کے تین بچوں حسن، حسین اور مریم کے نام پاناما لیکس میں منکشف ہوئے تھے
نواز شریف کے تین بچوں حسن، حسین اور مریم کے نام پاناما لیکس میں منکشف ہوئے تھے

اس پر نواز شریف کو حزب مخالف کی طرف سے شدید تنقید کے ساتھ ساتھ مستعفی ہونے کے مطالبات کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن وہ اسے خاطر میں نہ لاتے ہوئے کسی بھی طرح کی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہ ہونے کے موقف پر ڈٹے رہے۔

بعد ازاں یہ معاملہ عدالت عظمیٰ تک پہنچا جس نے نواز شریف کو عوامی عہدہ رکھنے سے نااہل قرار دیتے ہوئے ان کے اور ان کے بچوں کے خلاف احتساب عدالت میں ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا۔

لیکن اس کے علاوہ ان سیکڑوں شخصیات کے بارے میں کوئی قابل ذکر قانونی چارہ جوئی دیکھنے میں نہیں آئی جن کے نام پاناما پیپرز میں شامل تھے اور اسی بنا پر ملک کے بعض حلقے پیراڈائز پیپرز کے انکشافات میں کوئی خاص دلچسپی ظاہر نہیں کر رہے۔

لیکن بعض غیر جانبدار حلقوں کے خیال میں ایسے انکشافات دراصل ایک اہم پیش رفت ہے جس سے خاص طور پر طاقتور شخصیات اور اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والوں کے بارے میں ایسی معلومات سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں جن کا ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

سینیئر تجزیہ ڈاکٹر ہما بقائی نے پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر رقم کے ذرائع واضح ہوں تو آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری قانونی طور پر تو غلط نہیں ہے لیکن اس طرح کے انکشافات سے عالمی سطح پر مالی بدعنوانیوں کے خلاف بہت زوردار طریقے سے آواز بلند ہوئی ہے۔

"یہ جو راز افشا ہوئے ہیں یہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہوئے ہیں کہ یہ نظام کس طرح وسائل کو چند مٹھیوں میں بند کرنے کی اجازت دیتا ہے اور پھر اس کی توجیہات پیدا کرتا ہے مختلف طریقے سے اور پھر لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے تو میرا خیال ہے کہ یہ سوچنا کہ کس کو سزا ہوئی کس کو نہیں ہوئی یہ چھوٹا پیرایہ ہے جب کہ یہ بہت وسیع معاملہ ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ ایسی معلومات کے سامنے آنے سے طاقت کے ایوانوں پر ضرب لگی ہے اور یہ وقت ہی بتائے گا کہ یہ ضرب کتنی کاری ہے۔

XS
SM
MD
LG