رسائی کے لنکس

'یہ وقت جشن منانے کا نہیں، آئین بچانے کا ہے'


دہلی کے انڈیا گیٹ پر شہریت کے متنازعہ قانون کی مخالفت میں پلے کارڈ اٹھائے مظاہرین (فوٹو، رائٹرز)
دہلی کے انڈیا گیٹ پر شہریت کے متنازعہ قانون کی مخالفت میں پلے کارڈ اٹھائے مظاہرین (فوٹو، رائٹرز)

بھارت میں 2020 کا استقبال شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے خلاف مظاہروں سے کیا گیا ہے۔ دارالحکومت نئی دہلی میں خواتین، طلبہ، فن کاروں اور سیاسی و سماجی کارکنوں نے متعدد مقامات پر رات گئے مظاہرے کیے۔

کناٹ پیلس، جامعہ ملیہ اسلامیہ، شاہین باغ اور کئی دیگر مقامات پر رات میں احتجاج کیا گیا۔ احتجاج کے دوران مظاہرین نے آئین کے تحفظ سے متعلق ایک قرارداد بھی پڑھی۔ مظاہروں میں شریک کچھ لوگوں کو امید تھی کہ حکومت نئے سال میں شہریت ترمیمی ایکٹ واپس لے گی۔

سال نو کے پہلے دن یعنی یکم جنوری کو نئی دہلی، چندی گڑھ، گوہاٹی، بھونیشور اور کئی دیگر شہروں میں شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے خلاف مظاہرے کیے گئے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ یہ وقت جشن منانے کا نہیں بلکہ آئین کو بچانے کا ہے۔

ملک بھر کی تقریباً 100 تنظیموں نے 'وی دی پیپل' یعنی ہم عوام کے نام سے ایک پلیٹ فارم تشکیل دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک مظاہرے جاری رکھیں گے جب تک حکومت مذکورہ قانون واپس نہیں لے لیتی۔

یاد رہے کہ 'وی دی پیپل' بھارتی آئین کا پہلا جملہ ہے۔

'وی دی پیپل' نے رواں ماہ ملک گیر احتجاج کا پلان بھی ترتیب دیا ہے جس کے مطابق تین جنوری سے مظاہرے شروع ہوں گے۔ احتجاج کا یہ سلسلہ 30 جنوری تک وقفے وقفے سے جاری رہے گا۔

دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نزدیک ایک رہائشی کالونی شاہین باغ، شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہروں کا ایک بڑا مرکز بن گئی ہے۔ نئے سال کی اوّلین ساعتوں میں یہاں یعنی دھرنے پر بیٹھے مظاہرین نے قومی ترانہ گایا۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

شاہین باغ کے ایک سماجی کارکن ڈاکٹر مظفر حسین غزالی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نقطۂ انجماد تک پہنچ جانے والے درجۂ حرارت کے دوران بھی یہاں خواتین 24 گھنٹے دھرنے میں بیٹھی رہتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سخت سردی میں یہاں خواتین اس لیے بیٹھی ہیں کہ حکومت نے جو جانب دارانہ قانون منظور کیا ہے، اسے واپس لیا جائے۔

مظفر حسین نے کہا کہ جب تک قانون واپس نہیں لیا جاتا، اس وقت تک دھرنا جاری رہے گا۔

نوئیڈا کو جنوبی دہلی سے ملانے والی شاہراہ پر ترپال کا عارضی سائبان ڈال کر خواتین 15 دسمبر سے دھرنے پر بیٹھی ہوئی ہیں۔ اس دھرنے میں 15 دن کے نومولود بچے سے لے کر 80 سال تک کی معمر خواتین بھی شریک ہیں۔

اس دھرنے میں شرکت کے لیے دہلی کے دوسرے علاقوں سے بھی لوگ پہنچ رہے ہیں۔ خاص طور پر رات میں یہاں بڑا مجمع اکٹھا ہو جاتا ہے۔

دھرنے میں شریک خواتین کا کہنا ہے کہ حکومت مذکورہ قانون ختم کر دے، تو ہم بھی ہٹ جائیں گے۔ ہم نہیں چاہتے کہ جس طرح آسام میں لوگ اذیتوں میں مبتلا ہوئے، ہم اور ہمارے بچے بھی مبتلا ہوں۔

دھرنے میں 15 دن کے نومولود بچے سے لے کر 80 سال تک کی معمر خواتین بھی شریک ہیں۔ (فائل فوٹو)
دھرنے میں 15 دن کے نومولود بچے سے لے کر 80 سال تک کی معمر خواتین بھی شریک ہیں۔ (فائل فوٹو)

بائیں بازو اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے رہنما اور سماجی کارکن، طلبہ اور فن کار یہاں بڑی تعداد میں پہنچ کر دھرنے پر بیٹھی خواتین کا حوصلہ بڑھاتے نظر آتے ہیں۔

دوسری طرف ​بھارتی شہر کانپور کے ایک تعلیمی ادارے، آئی آئی ٹی کانپور نے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے جو اس بات کا تعین کرے گی کہ فیض احمد فیض کی نظم 'ہم دیکھیں گے'، کہیں ہندو مخالف تو نہیں ہے۔ یہ کمیٹی ایک فیکلٹی ممبر کی شکایت پر بنائی گئی ہے۔

فیکلٹی ممبر نے دعویٰ کیا ہے کہ نظم کا ایک یہ مصرعہ "جب ارضِ خدا کے کعبے سے، سب بت اٹھوائے جائیں گے" اور دوسرا "بس نام رہے گا اللہ کا" ہندو مذہب کے خلاف ہے۔

اس درخواست اور کمیٹی سے متعلق طلبہ کا کہنا ہے کہ شکایت کنندہ فرقہ وارانہ ذہنیت کا مالک ہے اور فرقہ وارانہ مواد پوسٹ کرنے کی وجہ سے ایک سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ نے ان پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔

خیال رہے کہ بھارت میں جاری مظاہروں میں یہ نظم خوب مقبول ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ حبیب جالب کی نظم 'دستور' بھی بہت پڑھی جا رہی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG