عرب لیگ کے وزرائے خارجہ بدھ کے روز قاہرہ کے ایک اجلاس کے دوران عرب لیگ کے وزرائے خارجہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان چار ماہ کے لیے مذاکرات کی بحالی پر متفق ہو گئے ہیں۔ یہ مذاکرات 2008ء میں غزہ پر اسرائیل کے حملے کے آغاز کے بعد سے تعطل کا شکار تھے۔
عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عمرو موسیٰ نے عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی صورت حال کے بارے میں ایک محتاط جائزہ پیش کیا۔ لیکن انہوں نے اپنی گفتگو کے آخر میں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کی بحالی کی تائید کی۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مذکورہ مذاکرات چار ماہ سے زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہنے چاہئیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ہم امن کے حصول کے لیے امریکہ کے دباؤ اور اس کی جانب سے فلسطینی صدر محمود عباس کو ایک بار پھر کرائی جانے والی یقین دہانیوں کے بعد اسرائیل کی سنجیدگی پر ہمارے یقین کی کمی کے باوجود ہم اسے بالواسطہ مذاکرات کا آخری موقع دے رہے ہیں۔لیکن انہوں نے مزید کہا کہ یہ بالواسطہ مذاکرات غیر معینہ عرصے تک جاری نہیں رہیں گے۔ اس لیے ہم نے انہیں چار ماہ کے لیے محدود کر دیا ہے۔
عمرو موسی ٰ نے یہ بات بھی زور دے کر کہی کہ اسرائیل کو چاہیئے کہ وہ آباد کاری کی پالیسی کو ختم کرے تاکہ حقیقی مذاکرات انجام پاسکیں۔ فلسطینی مذاکرات کار کئی ہفتوں سے یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ صرف اسی صورت میں مذاکرات کی میز پر واپس آئیں گے اگر اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے میں آبادکاری کی اپنی تمام سرگرمیاں بند کر دے گا۔
عربوں کی جانب سے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کی بحالی کے لیے گرین سگنل کے باوجود عمرو موسیٰ نے اسرائیل کی بقول ان کے، اشتعال انگیزی کے پیش نظر قیام امن کے حصول کے امکان کی کمزور تصویر پیش کی۔
انہوں نے کہا کہ عرب وزرائے خارجہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ موجودہ حالات میں اسرائیل کے ساتھ براہ راست مذاکرات قابل عمل نہیں ہیں اور ان سے اس لیے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا کیونکہ اسرائیل یروشلم اور مسجد اقصیٰ سے لے کر الخلیل اور مغربی کنارے میں آباد کاریوں تک معاملات میں روزانہ کی بنیاد پر کارروائیاں کر رہا ہے۔
شام کے وزیر خارجہ ولید المعلم نے بھی وزرائے خارجہ کے سیشن کے ابتدائی حصے کے دوران بار بار یہ کہتے ہوئے عمرو موسیٰ سے اختلاف کیا کہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ خود فلسطینیوں کو کرنا چاہیئے نہ کہ عرب وزرائے خارجہ کو۔
انہوں نے کہا کہ عرب وزرائے خارجہ کی کمیٹی کو اس فیصلے کا اختیار حاصل نہیں ہے کہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کیے جائیں یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے فیصلے کا اختیار صرف اور صرف فلسطینیوں کو حاصل ہے۔
شام نے، جو فلسطینی تنظیم حماس کے منحرف لیڈر خالد مشال کا وطن ہے، اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن مذاکرات پر مسلسل سخت موقف اختیار کر رکھا ہے۔ شام یہ بات بھی زور دے کر کہتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے لیڈر محمود عباس کی اپنے عہدے پر مدت جنوری 2009ء میں ختم ہو چکی ہے، اس لیے وہ مذاکرات کرنے کے اہل نہیں ہیں۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان براہ راست مذاکرات دسمبر2008ء میں اس کے بعد معطل ہو گئے تھے جب اسرائیل نے حماس کے زیر انتظام غزہ کی پٹی پر فضائی اور زمینی حملہ کیا تھا۔