رسائی کے لنکس

دیامیر میں خواتین کے سکولوں پر حملوں کے بعد حالات کشیدہ، فوج کو تیار رہنے کا حکم


فائل فوٹو
فائل فوٹو

خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ سے منسلک شمالی علاقہ جات کے دو اضلاع میں خواتین کے سکولوں کو جلانے اور باردی مواد سے تباہ کرنے کے بعد حالات ابھی تک کشیدہ ہیں جہاں پر عسکریت پسندوں سے نمٹنے کیلئے فوج کو تیار رہنے کا حکم جاری کر دیا گیا ۔

دیامیر ڈویژن کے ضلع چیلاس کے داریل اور تانیگر وادیو ں سے تعلق رکھنے والے مبینہ عسکریت پسندوں نے اہم سڑکوں پر قبضہ کرکے علاقے میں پولیس اور قانون نفاذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کا داخلہ روک دیا ہے۔ مبینہ شرپسندوں نے ہفتے کے روز اس وقت دونوں وادیوں کو دیامیر اور چیلاس سے ملانے والی سڑکوں پر قبضہ کرلیا جب صوبائی حکومت نے جرگے کے ذریعے عسکریت پسندی میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا۔

سڑک بندکرنے کے بعد مبینہ عسکریت پسندوں نے سیشن جج عنایت الرحمان کی گاڑی پر فائرنگ بھی کی جس میں وہ، محافظ اور ڈرئیو ر محفوظ رہے۔ سیشن جج عنایت الرحمان داریل میں پولیس اہلکار کی نماز جنازہ میں شرکت سے واپس جا رہے تھے ۔

مقامی لوگوں نے بتایا کہ سڑک کی بندش کے نتیجے میں دونوں وادیوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لوگ گھروں میں محصور ہوئے ہیں۔ محصور ہونے والوں میں گلگت بلتسان کی کابینہ میں شامل وزیر عمران وکیل بھی شامل ہیں جن کا تعلق تانگیروادی سے ہے۔

دیامیر سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی عبدالرحمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان کی زیر صدارت کابینہ کا ایک خصوصی اجلاس ہوا جس میں حالات پر قابو پانے اور مطلوب عسکریت پسندوں کو گرفتار کرنے کیلئے فوج کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔

دیا میر کے کمشنر عبدالواحد شاہ نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں حالات کو قابو میں لانے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ پولیس اہلکار آپریشن میں آگے جا رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ داریل اور تانیگر کی وادیوں میں فوج کے دستے موجود ہیں اور فوج کو تیار رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تاہم اُنہوں نے کہا کہ ابھی تک فوج کو استعما ل نہیں کیا گیا ۔

صحافی عبدالرحمان نے بتایا کہ خواتین کے سکولوں پر حملوں کے سلسلے میں سات پولیس تھانوں میں 14 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ تاہم حکومت نے جرگے کے ذریعہ ان پندرہ افراد کے حوالگی کا مطالبہ کیا ہے جن کے خلاف ماضی میں عسکریت پسندی کے واقعات میں ملوث ہونے پر مقدمات درج کئے گئے تھے۔ مجموعی طور پر اب تک تیس مشتبہ افراد کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG