رسائی کے لنکس

دنیا کے دیگر خطوں کی نسبت ایشیا کے ساحل شہر تیزی سے زیرِ آب آ رہے ہیں؛ نئی تحقیق میں انکشاف


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایک نئی تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ دنیا کے دیگر مقامات کی نسبت جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے ساحلی شہر زیادہ تیزی سے زیرِ آب آ رہے ہیں۔ سمندر کی سطح میں مسلسل ہونے والے اضافے سے لاکھوں لوگوں کی زندگی بھی خطرے میں ہے۔

سنگا پور کی ’نانیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی‘ کی تحقیق گزشتہ ہفتے ایک جریدے میں شائع ہوئی تھی، جس میں کہا گیا ہے کہ شہروں میں تیزی سے ہونے والی آباد کاری کے سبب زیر زمین پانی کے استعمال میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

زیرِ زمین پانی کے بہت زیادہ استعمال کے حوالے سے تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ اس وجہ سے شہروں کو تیزی سے زمین کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جو سمندر میں ہونے والے اضافے کے سبب پہلے ہی کم ہو رہی ہے۔

تحقیق کے مطابق ویت نام کا سب سے گنجان آباد اور تجارتی شہر ہو چی من 16 اعشاریہ دو کی اوسط سے سالانہ سمندر میں ڈوب رہا ہے جو کہ اس تحقیق کے مطابق دنیا کے 48 ساحلی شہروں میں ڈوبنے والے شہروں کی لسٹ میں سر فہرست ہے۔

سمندر کے پانی میں تیزی سے ڈوبنے والے ساحلی شہروں کی فہرست کے مطابق بنگلہ دیش کا شہر چٹاگانگ دوسرے نمبر پر ہے جب کہ بھارت کا مغربی شہر احمد آباد، انڈونیشیا کا دارالحکومت جکارتہ اور میانمار کا تجارتی شہر ینگون بھی حالیہ برسوں میں 20 ملی میٹر تک سالانہ ڈوب رہے ہیں۔

نئی صدی کے آغاز سے ہی دنیا کو موسمیاتی تبدیلی کے بڑے چیلنج کا بھی سامنا ہے جس سے ہر خطہ متاثر ہو رہا ہے۔

گزشتہ ہفتے جاری ہونے والی لائڈ رجسٹر فاؤنڈیشن ورلڈ رسک پول کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان دنیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو قدرتی آفات سے نمٹنے کی کم سے کم سکت رکھتے ہیں۔

یہ رپورٹ ایک لاکھ 25 ہزار سے زائد افراد کے انٹرویوز کی بنیاد پر تیار کی گئی تھی۔ جو گیلپ کی جانب سے دنیا کے 121 ممالک میں گزشتہ برس کے دوران کیے گئے تھے تاکہ ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات کا اندازہ لگایا جاسکے۔

پاکستان میں 2010 اور 2022 کے سیلاب میں کیا فرق ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:25 0:00

تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ تیزی سے پھیلنے والے ان ساحلی شہروں میں زیرِ زمین پانی کے حصول اور عمارتوں کی تعمیر کے سبب مقامی زمین کی کمی کا باعث بن رہے ہیں۔

محققین کے مطابق ڈوبتے شہر خود آب و ہوا کی تبدیلی کا نتیجہ نہیں ہیں۔ تاہم ان کی تحقیق اس بات کا تعین کرے گی کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سمندر کی سطح میں کیسے اضافہ ہو رہا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی پر اقوامِ متحدہ کے بین الحکومتی پینل کے مطابق 2050 تک ایک ارب سے زیادہ لوگوں کو سطح سمندر میں ہونے والے اضافے سے خطرات لاحق ہوں گے۔

آئی پی سی سی کے مطابق گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں تیزی سے کمی کے باوجود رواں صدی کے آخر تک سمندر کی سطح 60 سینٹی میٹر (لگ بھگ24 انچ) تک بڑھ جائے گی۔

XS
SM
MD
LG