رسائی کے لنکس

افغانستان: طالبان کے حملے 10 سال کی بلند ترین سطح پر


فائل فوٹو
فائل فوٹو

امریکہ کے ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان اور دیگر عسکریت پسندوں کے حملے 2019 کی آخری سہ ماہ میں بلند ترین سطح پر رہے۔ اکتوبر سے دسمبر کے درمیان 8204 حملے کیے گئے جن میں سے 37 فی صد کو "کامیاب" حملے قرار دیا گیا۔

اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن (سیگار) نامی امریکی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2014 میں نیٹو اور امریکی فوج کے بڑے حصے کے افغانستان سے انخلا کے بعد گزشتہ سال زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔

سیگار نامی ادارے نے کانگریس کے لیے جاری کی گئی سہ ماہی رپورٹ میں فوج پر حملوں کی تفصیلات جاری کی ہیں۔ جس کے مطابق افغانستان میں گزشتہ سال مختلف حملوں میں 23 امریکی فوجی ہلاک جب کہ 192 زخمی ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروہوں نے 2019 کے آخری تین ماہ میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران کسی بھی سہ ماہی کے مقابلے میں سب سے زیادہ حملے کیے۔

سیگار کی رپورٹ میں فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق طالبان سمیت دیگر عسکریت پسند گروہوں کے 2019 کے آخری تین ماہ میں افغانستان کے مختلف حصوں میں کیے جانے والے حملوں کی یومیہ اوسط 91 حملے بنتی ہے۔

امریکی فوج نے عسکریت پسندوں کے حملوں کا ریکارڈ 2010 میں مرتب کرنا شروع کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق 2018 کے آخری تین ماہ میں طالبان اور عسکریت پسندوں نے 6974 حملے کیے تھے۔

خیال رہے کہ امریکہ نے افغانستان میں جنگ بندی اور امریکی فوج کے انخلا کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کر رکھا ہے۔

واضح رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان یہ مذاکرات 2018 میں شروع ہوئے تھے۔ گزشتہ سال ستمبر میں امریکہ کے صدر ٹرمپ نے کابل میں ہونے والے ایک حملے کے بعد یہ مذاکرات معطل کر دیے تھے۔ تاہم اب یہ بحال ہو گئے ہیں۔

امریکہ طالبان پر مستقل جنگ بندی اور تشدد میں کمی پر زور دے رہا ہے جب کہ طالبان کی طرف سے محدود سطح پر جنگ بندی کی پیش کش کی جا چکی ہے۔ لیکن امریکہ کا اصرار ہے یہ اقدام مستقل بنیادوں پر ہونا چاہیے۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان افغانستان میں امن کے لیے کوئی معاہدہ طے کرنے پر مذاکرات جاری ہیں۔ اسی سلسلے میں زلمے خلیل زاد نے دوحہ میں افغان طالبان کے مذاکراتی وفد کے ساتھ حال ہی میں ایک ملاقات کی تھی۔

گزشتہ ہفتے انسٹیٹیوٹ آف وار اینڈ پیس اسٹڈیز کے ایک سروے کے نتائج سامنے آئے تھے جس کے مطابق افغانستان کی نصف آبادی طالبان اور امریکہ میں امن معاہدہ ہونے کے بعد غیر ملکی فوج کے انخلا کی خواہاں ہے۔

سروے میں شامل 80 فی صد افغان شہریوں کی رائے تھی کہ افغانستان میں 18 سال سے جاری جنگ کا خاتمہ سیاسی عمل اور مذاکرات سے ممکن ہے جب کہ 20 فی صد شہریوں کی رائے میں امن کا قیام عسکری کارروائیوں سے ہو سکتا ہے۔

انسٹیٹیوٹ آف وار اینڈ پیس اسٹڈیز کے سروے میں 46 فی صد افغان شہریوں کی رائے تھے کہ امن معاہدہ ہونے کے بعد غیر ملکی افواج کو افغانستان سے چلے جانا چاہیے جب کہ 33 فی صد کی رائے تھی کہ غیر ملکی فوج کو امن معاہدے کے بعد بھی افغانستان میں قیام کرنا چاہیے۔

انسٹیٹیوٹ آف وار اینڈ پیس اسٹڈیز کے سروے میں شامل کیے گئے 5038 افراد میں سے 3274 مرد جب کہ 1764 خواتین تھیں۔

امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کے مطابق انسپکٹر جنرل نے اپنی رپورٹ میں گزشتہ سہ ماہی میں کیے جانے والے شدت پسندوں کے کل حملوں میں سے 37 فی صد کو "کامیاب" قرار دیا ہے۔ ان 37 فی صد حملوں میں غیر ملکی فوجی، مقامی سیکیورٹی اہلکار یا کسی عام شہری کی ہلاکت ہوئی تھی۔

'سی این این' کی رپورٹ کے مطابق اکثر کامیاب حملے طالبان نے کیے جس میں افغان سیکیورٹی فورسز کی چوکیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان چوکیوں میں موجود اہلکار حملوں کو روکنے کی استعداد نہیں رکھتے کیوں کہ وہاں فوجیوں یا پولیس اہلکاروں کی تعداد انتہائی کم ہوتی ہے۔

افغانستان میں تعینات امریکی فوجی مشیر یہ چوکیاں کم کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی حکام کے مطابق افغان حکومت میں موجود طاقت ور شخصیات ان چوکیوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان کے حملوں میں تو اضافہ ہوا ہے لیکن وہ کسی بھی بڑے شہر یا علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2018 کی آخری سہ ماہی کے مقابلے میں 2019 کے آخری تین ماہ میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں عام افغان شہریوں کی ہلاکتوں میں 20 فی صد کمی آئی ہے۔

'سی این این' نے اپنی رپورٹ میں مزید بتایا ہے کہ امریکہ نے بھی افغانستان میں 2019 میں گزشتہ دو برس کے مقابلے میں فضائی حملوں میں اضافہ کیا ہے۔

امریکی ایئر فورس کی سینٹرل کمانڈ کے مطابق 2019 میں طالبان، داعش اور القاعدہ کے خلاف فضائی حملوں میں 7423 میزائل اور بم گرائے گئے جو 2010 کے بعد سب سے زیادہ ہیں۔

یاد رہے کہ 2010 میں افغانستان میں ایک لاکھ کے قریب امریکی فوجی موجود تھے اور اب ان کی تعداد 13 ہزار کے قریب ہے۔

XS
SM
MD
LG