رسائی کے لنکس

عدالتی حکم: آڈیو لیکس تحقیقاتی کمیشن نے کارروائی روک دی


سپریم کورٹ کے حکم کے بعد آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے قائم کردہ کمیشن نے کارروائی روک دی ہے۔ کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ عدالتی حکم کے تناظر میں کمیشن کارروائی نہیں کرسکتا۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق ہفتے کو سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس تحقیقاتی کمیشن نے کارروائی شروع کی تو جسٹس عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کوئی عدالتی حکم آیا ہے۔ کیا آپ کے پاس اس حکم کی کاپی موجود ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کمیشن کو سپریم کورٹ کے حکم کی کاپی فراہم کردی۔

واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے 19 مئی کو آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ایک تین رکنی کمیشن قائم کیا تھا۔ کمیشن میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نعیم اختر افغان بھی شامل تھے۔

اس کمیشن کے قیام کے خلاف عمران خان اور دیگر نے درخواستیں دائر کی تھیں جس پر جمعے کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے سماعت کی تھی۔

عدالت نے جمعے کی سماعت کے بعد اپنے فیصلے میں کمیشن کو آئندہ سماعت تک مزید کارروائی سے روک دیا تھا۔ عدالت نے آڈیو لیکس پر تحقیقاتی کمیشن کے بارے میں حکومتی نوٹیفکیشن بھی معطل کردیا تھا۔

سپریم کورٹ نے کمیشن کے حکم اور کارروائی پر آئندہ سماعت تک حکم امتناع جاری کیا تھا۔

ہفتے کو جسٹس عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا آپ بھی کل سپریم کورٹ میں موجود تھے؟ کیا آپ کو عدالت کی طرف سے نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ جی میں بھی عدالت میں موجود تھا۔ مجھے ٹیلی فون پر عدالت میں پیش ہونے کا کہا گیا تھا۔

کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ سپریم کورٹ قواعد کے مطابق فریقین کو پیشگی نوٹسز جاری کرنا ہوتے ہیں۔ کمیشن کو کسی بھی درخواست گزار نے نوٹس نہیں بھیجا۔ سپریم کورٹ کے رولز ر پر عمل درآمد لازم ہے۔

جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ یہ کمیشن انکوائری ایکٹ کے تحت بنا، قانون کے تحت ہمیں ایک ذمہ داری سونپی گئی۔ ہوسکتا ہے کمیشن کو مشکل ذمہ داری دی گئی ہو۔ کیا قانون اور اپنے حلف کے تحت مشکل ٹاسک سے انکار کرسکتے ہیں؟

کمیشن کے سربراہ کا کہنا تھا کہ یہ ذمہ داری ہمارے لیے ذہنی تکلیف کا باعث ہوسکتی ہے۔ میں حیران ہوں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے ہر ایک پر لازم ہیں۔ الجھن کا شکار ہوں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سپریم کورٹ پر لاگو نہیں ہوتے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وکیل اپنا کوڈ آف کنڈکٹ بھی پڑھیں۔ ہم بھی بطور وکیل پریکٹس کرتے تھے۔ ہم حکم امتناع لے کر متعلقہ عدالت کو جاکر آگاہ کرتے تھے۔ وکیل خود اپنے کوڈ پر عمل نہیں کرتے۔ ہمیں قانون سیکھانے بیٹھ جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کمیشن کو حکم امتناع سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ اگر پہلے نوٹس دیا ہوتا تو کمیشن کے رکن جج کو کوئٹہ سے نہ بلاتے۔

جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ درخواست گزاروں میں سے کوئی بھی آج کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوا۔ باہر پریس کانفرنس کی جاتی ہے لیکن ہمارے سامنے پیش کوئی نہیں ہوا۔ نہ عابد زبیری آئے نہ ان کے وکیل شعیب شاہین نے پیش ہونے کی زحمت کی۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کل کے تحریری حکم نامے میں میرے کیس کا ذکر کیا۔ میرے کیس کے حقائق یکسر مختلف تھے۔ میری اہلیہ نے جائیدادوں کی ملکیت سے انکار نہیں کیا تھا۔ میری اہلیہ کا کیس یہ تھا جو شخص ہمارے خلاف سپریم کورٹ میں کھڑا ہے، اسے کسی نے کھڑا کیا ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ دوسروں کی عزت ہے تو تھوڑی بہت ہماری بھی ہے۔ زیادہ نہیں کم از کم تھوڑی بہت تو ہماری عزت ہونی چاہیے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حکومت نے ایک ٹاسک دیا اس لیے ہم بیٹھے۔ ججز کا حلف پڑھیں، ہم آئین و قانون کے تابع ہیں۔

سماعت کے دوران جسٹس فائز عیسیٰ نے صحافی عبدالقیوم صدیقی کو روسٹم پر بلایا اور کہا کہ ہوسکتا ہے کہ قیوم صدیقی کو کمیشن کی کارروائی اور آڈیو پر اعتراض نہ ہو۔

جسٹس عیسیٰ نے پوچھا کہ آپ کس سے بات کر رہے تھے؟ جس پر قیوم صدیقی نے کہا کہ میری خواجہ طارق رحیم سے بات ہو رہی تھی۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ آڈیو قیوم صدیقی اور وکیل صاحب نے خود لیک کی ہے۔ تمام لوگوں سے پوچھیں گے کہ انہوں نے آڈیو خود تو لیک نہیں کی، سمجھ نہیں آتا کہ شعبہ قانون کو ہو کیا گیا ہے۔

کمیشن کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ایک گواہ خواجہ طارق رحیم نے ہمیں ای میل کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جب آپ خواتین کے بیانات ریکارڈ کرنے لاہور جائیں گے تو میں وہاں آجاؤں گا۔ خواجہ طارق رحیم نے کہا طبعی مسائل کے سبب اسلام آباد میں پیش نہیں ہو سکتا۔

دورانِ سماعت جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ شواہد کو قابل قبول ثابت کرنا استغاثہ کا کام ہوتا ہے۔ ابھی تو شواہد کا مرحلہ کمیشن میں آیا ہی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹی وی شوز پر کہا جاتا ہے کہ ہم آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ کوڈ آف کنڈکٹ اٹھا کر پھینک دیا گیا ہے۔ ہمیں قانون سکھانا ہے چلیں سکھا دیں۔

ان کے بقول اگر کوئی کلائنٹ کہے جج کو 12 لاکھ روپے دینے ہیں تو کیا اس پر پرائیویسی کے استحقاق کا اطلاق ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ سچ کو کیوں سامنے آنے سے روکا جا رہا ہے۔ اعتراض کمیشن میں آکر بھی کیا جاسکتا تھا۔ واضح کیا تھا کہ کسی کے حقوق متاچر کریں گے نہ کسی کو ملزم بنائیں گے۔

انہوں نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے عدالت کو قانونی نکات کیوں نہیں بتائے؟ چیف جسٹس پر اعتراض کیوں کیا تھا؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحقیق طلب ایک آڈیو چیف جسٹس کی ساس کی بھی ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ انکوائری کمیشن ایکٹ میں کہاں لکھا ہے کہ چیف جسٹس کی مشاورت ضروری ہے۔ عدالت نے لکھا کہ حکومت نے یکطرفہ کارروائی کی ہے، حکومت ہمیشہ یکطرفہ ہی چلتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون میں چیف جسٹس سے مشاورت کا ذکر نہیں۔ حکومت قانون کے مطابق کام کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سب سے آسان کام ہے کہ جج پر الزام لگا دو، ججز کے پاس فوج ہوتی نہ پولیس صرف اخلاقی اتھارٹی ہوتی ہے۔

کمیشن کوکن معاملات کی تحقیقات کرنی تھی؟

کمیشن کو سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب اور وکیل کی مبینہ آڈیو، مخصوص بینچز کے سامنے مقدمات سماعت کے لیے پیش کیے جانے سے متعلق مبینہ آڈیو کی تحقیقات کرنا تھی۔

تین رکنی تحقیقاتی کمیشن جن معاملات کی تحقیقات کرتا ان میں چیف جسٹس آف پاکستان کی ساس اور وکیل کی اہلیہ کے درمیان ہونے والی مبینہ گفتگو سمیت سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب اور ایک نامور وکیل کے درمیان مخصوص بینچز کے سامنے مقدمات سماعت کے لیے مقرر کرنے سے متعلق مبینہ آڈیو کی تحقیقات شامل تھیں۔

حال ہی میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی خوش دامن کی مبینہ آڈیو لیک سامنے آئی تھی۔ اس کے علاوہ سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ کی سپریم کورٹ کےحاضر سروس جج سے متعلق ایک وکیل سے ہونے والی مبینہ آڈیو لیک بھی وائرل ہوئی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن سابق چیف جسٹس آف پاکستان سے متعلق مبینہ آڈیوز اور سابق وزیرِاعظم اور ان کی جماعت کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والی مبینہ گفتگو کی آڈیو لیکس کی بھی تحقیقات کرتا۔

XS
SM
MD
LG