رسائی کے لنکس

آسٹریلیا: جوہری فضلے کے گودام کی تعمیر پر تنازع


آسٹریلیا: جوہری فضلے کے گودام کی تعمیر پر تنازع
آسٹریلیا: جوہری فضلے کے گودام کی تعمیر پر تنازع

آسٹریلیا کے شمالی حصے میں جوہری فضلے کے لیے پہلے گودام کی تعمیر کے حکومتی منصوبے کی مخالفت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اس متنازع منصوبے پر بحث کے لیے بدھ کے روز علاقے کے لوگوں کا ایک عوامی اجتماع ہو رہا ہے۔

آسٹریلیا کی وفاقی حکومت ٹیننٹ کریک کے شمالی سٹیشن کے مویشیوں کی افزائش کے ایک دور افتادہ علاقے میں جوہری فضلے کو ٹھکانے لگانے کا گودام قائم کرنا چاہتی ہے۔

اگلے چھ برسوں میں فرانس اور سکاٹ لینڈ کے ساتھ معاہدوں کی مدت ختم ہونے کے بعد ری پراسیسنگ کے لیے یورپ بھیجا جانے والا آسٹریلیا کا وہ جوہری فضلہ واپس بھیج دیا جائے گا۔ اب آسٹریلیا کے سرکاری حکام کو اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس فضلے کو کہاں رکھا جائے گا۔

شمالی علاقے میں ٹیننٹ کریک سے 120 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع زمین کے ایک الگ تھلگ قطعے پر واقع پر مویشیوں کے موکاتی سٹیشن کو جوہری فضلہ رکھنے کے ممکنہ مقام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ علاقے کے ایک مقامی قبیلے ابریجی کے باشندے اس قطعہ ارضی کو ایک کروڑ دس لاکھ ڈالر میں بیچنے کی پیش کش کر چکے ہیں، جس پر علاقے کے دوسرے گروہ برہم ہو گئے ہیں جنہیں صحت اور ماحولیاتی بنیادوں پر اس فیصلے پر اعتراض ہے۔

توقع ہے کہ ڈارون شہر کے جنوب میں واقع سونے کی کان کنی کے ایک پرانے قصبے ٹیننٹ کریک کے عوامی اجتماع میں ان متنازع نظریات پر سخت بحث مباحثہ ہو گا۔

آسٹریلیا کی سیاسی جماعت گرین سے تعلق رکھنے والے سینیٹر سکاٹ لڈلم کہتے ہیں کہ اس علاقے میں تاب کار فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لیے کسی مرکز کی تعمیر کا منصوبہ انتہائی متنازع شکل اختیار کر چکا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس سے خاندانوں کے درمیان جھگڑوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے اور حکومت نے ابھی تک پوری کمیونٹی کو اعتماد میں لینے کی کوشش نہیں کی ہے۔ حکومت نے مٹھی بھر لوگوں کو چنا ہے، کچھ دستخط حاصل کیے ہیں اور اب وہ اس منصوبے پر زبردستی عمل درآمد کی کوشش کر رہی ہے۔

1950ء کے عشرے کے آخر سے آسٹریلیا میں دس میگا واٹ کا ایک چھوٹا سا تحقیقی جوہری ری ایکٹر کام کر رہا ہے۔ جوہری صنعت اور حکومت نے کبھی بھی جوہری فضلے کا کوئی گودام بنانے پر توجہ نہیں دی ہے۔اس لیے اب 2010ء میں وہ اس علاقے میں زبردستی اسے قائم کرنا چاہ رہے ہیں۔

آسٹریلیا کی حکومت کہہ چکی ہے کہ موکاتی سٹیشن کے علاقے میں جوہری فضلے کے اسٹور کی تعمیر کے سلسلے میں سائنسی اور ماحولیاتی پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔ وزرا کہہ چکے ہیں کہ اگر زمین کے مالکان نے مخالفت کی تو وہ یہ گودام تعمیر نہیں کریں گے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ شمالی علاقے کے اس حصے میں حالیہ زلزلوں کے باعث اس تنصیب کی حفاظت کے بارے میں سنگین سوال سامنے آئے ہیں۔

آسٹریلیا کی سیاسی جماعت گرین کہہ چکی ہے کہ تاب کار فضلے کو سڈنی میں واقع ملک کی واحد جوہری تنصیب کے مضافات میں اسٹور کرنا چاہیئے۔

آسٹریلیا کی جوہری صنعت، آب و ہوا کی تبدیلی اور بجلی کے حصول کے لیے سستے کوئلے پر انحصار سے متعلق خدشات کے پیش نظر 2030ء تک دس ایٹمی بجلی گھر تعمیر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اس وقت دنیا بھر میں تقریباً 400 جوہری بجلی گھر کام کر رہے ہیں۔ایشیا میں چین، بھارت، جاپان، جنوبی کوریا، پاکستان اور تائیوان اس ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جب کہ انڈونیشیا اور تھائی لینڈ جوہری بجلی گھر بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG