رسائی کے لنکس

ایران: صدارتی الیکشن چار امیدواروں تک محدود، خامنہ ای کا ووٹنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے پر زور


آیت اللہ خامنہ ای نے ایک تقریر میں کہا کہ اگر نیا صدر ووٹوں کی واضح اکثریت سے منتخب ہوتا ہے تو وہ طاقت ور ترین صدر ہو گا اور وہ بڑے کام کر سکے گا۔ لوگوں کی موجودگی اور ووٹ سے حقیقت میں تمام بڑے معاملات سمیت ملک کی قسمت کا تعین ہو سکتا ہے۔ (فائل فوٹو)
آیت اللہ خامنہ ای نے ایک تقریر میں کہا کہ اگر نیا صدر ووٹوں کی واضح اکثریت سے منتخب ہوتا ہے تو وہ طاقت ور ترین صدر ہو گا اور وہ بڑے کام کر سکے گا۔ لوگوں کی موجودگی اور ووٹ سے حقیقت میں تمام بڑے معاملات سمیت ملک کی قسمت کا تعین ہو سکتا ہے۔ (فائل فوٹو)

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے ووٹرز پر زور دیا ہے کہ وہ 18 جون کے صدارتی انتخاب کے لیے بڑی تعداد میں باہر نکلیں۔ ان کے بقول، اس طرح کی طاقت دکھانے سے ملک پر بیرونی دباؤ کم ہو گا۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ خامنہ ای نے بدھ کو ٹی وی پر ایک تقریر میں کہا کہ '48 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں ملک میں ایک اہم سرگرمی ہونے والی ہے۔'

انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ لوگوں کی موجودگی اور ووٹ سے حقیقت میں تمام بڑے معاملات سمیت ملک کی قسمت کا تعین ہو سکتا ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا تھا کہ اگر نیا صدر ووٹوں کی واضح اکثریت سے منتخب ہوتا ہے تو وہ طاقت ور ترین صدر ہو گا اور وہ بڑے کام کر سکے گا۔

ان کے بقول، اگر انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح میں کمی آئی تو دشمنوں کی جانب سے ایران پر دباؤ میں اضافہ ہو گا۔

ایران میں 18 جون کو صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں جس میں عدلیہ کے سربراہ اور سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے ساتھی ابراہیم رئیسی کو پسندیدہ ترین امیدوار قرار دیا جا رہا ہے۔

انتخابات کے لیے باضابطہ طور پر سات امیدوار مدِ مقابل تھے۔ تاہم، بدھ کو ایک معتدل جب کہ دو سخت گیر نظریات کے حامل امیدواروں نے دست برداری کا اعلان کیا۔

ایران کے نظامِ حکمرانی کے تحت ریاستی امور کا حتمی فیصلہ سپریم لیڈر کرتے ہیں جب کہ منتخب صدر ملک کے روز مرہ کے امور کو چلاتا ہے۔

’رائٹرز‘ کے مطابق، گزشتہ ماہ ایران کی 'شوریٰ نگہباں' (گارڈین کونسل) نے متعدد نامور معتدل اور قدامت پسند امیدواروں کو نا اہل قرار دیا تھا جس کے بعد ابراہیم رئیسی اور ایران کے مرکزی بینک کے سابق سربراہ اور معتدل نظریات کے حامل سمجھے جانے والے امیدوار عبدالناصر ہمتی کے درمیان مقابلہ سخت ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

بدھ کو سابق جوہری مذاکرات کار سعید جلیلی اور سخت گیر نظریات کے حامل قانون ساز علی رضا زاکانی نے دست برداری کا اعلان کیا جب کہ دوسری جانب معتدل محسن مہر علی زادہ نے ہمتی کے لیے خود کو الیکشن کی دوڑ سے الگ کر لیا ہے۔

البتہ، اب بھی دو سخت گیر نظریات کے حامل امیدوار میدان میں ہیں جو جمعے کو ہونے والے انتخابات سے قبل یا تو پیچھے ہٹ سکتے ہیں یا وہ ابراہیم رئیسی کی حمایت کر سکتے ہیں۔

حکام کا خیال ہے کہ انتخابات میں ٹرن آؤٹ 41 فی صد تک ہو سکتا ہے جو ماضی کے انتخابات کے مقابلے میں کافی کم ہو گا۔

دوسری جانب ایران میں کچھ اصلاح پسند سیاست دان اور بیرون ملک موجود انسانی حقوق کے کارکنان شہریوں سے انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل کر رہے ہیں اور گزشتہ کچھ ہفتوں سے ایران کے اندر اور بیرونِ ملک موجود ایرانی شہری اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگز کا استعمال بھی کر رہے ہیں۔

سخت گیر، معتدل اور اصلاح پسند

ایران میں انتخابی امیدواروں کو تین درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ حالیہ انتخابات میں حصہ لینے والے سب سے زیادہ امیدوار سخت گیر نظریات کے حامل ہیں جو ایران کے جوہری پروگرام کو وسعت دینے اور اس کے لیے دنیا سے مقابلے کی پالیسی کے حامی ہیں۔

معتدل امیدوار وہ ہیں جو حالات کو جوں کا توں برقرار رکھنا چاہتے ہیں جب کہ اصلاح پسند انہیں کہا جاتا ہے جو نظریاتی بنیاد پر قائم ایران کے نظامِ حکومت میں تبدیلیوں کے خواہاں ہیں۔

اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG