رسائی کے لنکس

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس پر حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے، 'ہاتھ مروڑ کر قانون بنوانے کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی'


پاکستان میں حکمران جماعت تحریک انصاف نے انتخابی اصلاحات سمیت اہم قانونی بلوں کی منظوری کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بدھ کو بلانے کا اعلان کیا ہے جس پر اپوزیشن جماعتوں نے کہا ہے کہ وہ اس کی بھرپور مزاحمت کریں گے۔

وفاقی وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان کا کہنا ہے کہ حکومت نے انتخابی اصلاحات کے حوالے سے اتحادی جماعتوں کے تحفظات دور کر دیے ہیں، لہذٰا اس حوالے سے قانون سازی میں زیادہ تاخیر نہیں کی جا سکتی ہے۔

منگل کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت انتخابی اصلاحات اس لیے چاہتی ہے تاکہ ہر عام انتخابات کے بعد دھاندلی دھاندلی کا شور نہ ہو۔

ادھر قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ وہ زبردستی کی قانون سازی رکوانے کی پوری کوشش کریں گے۔

منگل کو کوئٹہ میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہاتھ مروڑ کر زبردستی کی قانون سازی کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی۔

اس سے قبل گزشتہ ہفتے حکومت نے حزبِ اختلاف کی مخالفت اور اتحادی جماعتوں کے تحفطات سامنے آنے پر اس اجلاس کو ملتوی کر دیا تھا۔

حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے انتخابی اصلاحات کے بل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس عمل میں جلد بازی کو تحریکِ انصاف کی حکومت کی جانب سے منظم دھاندلی کی راہ ہموار کرنے کی کوشش قرار دے رکھا ہے۔

حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما سینیٹر شیری رحمن کا کہنا ہے کہ حزبِ اختلاف سے مشاورت کے بغیر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانا حکومت کی بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے۔

ملکی سیاسی و صحافتی حلقوں میں مشترکہ اجلاس کو دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ میں درکار عددی اکثریت حاصل نہ کر پانے کی صورت تحریکِ انصاف حکومت میں رہنے کا اخلاقی جواز کھو دے گی۔

حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ حکومتی کی جانب سے اتفاقِ رائے کے بغیر قانون سازی کی مخالفت کریں گے۔
حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ حکومتی کی جانب سے اتفاقِ رائے کے بغیر قانون سازی کی مخالفت کریں گے۔

'اتفاقِ رائے نہیں عددی اکثریت درکار ہے'

وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان کہتے ہیں کہ کسی بھی حکومت کی یہ بنیادی ذمے داری ہے کہ عوامی مفاد میں قانون سازی کرے اور مجوزہ قانونی بل 11 ماہ سے پارلیمنٹ میں زیرِ بحث ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ برس فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے متعلق قانون سازی کے لیے حزبِ اختلاف کے ساتھ 21 اجلاس منعقد کیے گئے تاہم اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا اور حکومت کو مشترکہ اجلاس بلا کر قانون سازی کرنا پڑی۔

بابر اعوان کہتے ہیں کہ حزبِ اختلاف کا یہ کہنا کہ اتفاقِ رائے سے قانون سازی کی جائے اس لیے ضروری نہیں کیوں کہ نہ تو وزیرِ اعظم کا انتخاب اتفاقِ رائے سے ہوتا ہے اور نہ ہی بجٹ کی منظوری متفقہ کی جاتی ہے۔

حکومت کی عددی اکثریت برقرار رکھ پانے کے سوال پر وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ بدھ کو مشترکہ اجلاس سے قبل حکومت اور اتحادی جماعتوں کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہے جس میں صورتِ حال واضح ہو جائے گی۔

بابر اعوان نے بتایا کہ اس مشترکہ اجلاس میں 28 قانونی بل منظوری کے لیے پیش کیے جائیں گے جن میں انتخابی اصلاحات بل، حیدر آباد یونیورسٹی کے قیام کا بل، اینٹی ریپ بل، ایف اے ٹی ایف سے متعلق قانون سازی کا بل، عالمی عدالتِ انصاف میں بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو سے متعلق قانون سازی کا بل بھی شامل ہے۔

متحدہ اپوزیشن نے مشترکہ اجلاس کے ذریعے قانونی بلوں کی منظوری کو روکنے کے لیے پارلیمنٹ کے اندر سیاسی اقدامات لینے اور قانون سازی کی منظوری کی صورت میں سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

سینیٹر شیری رحمن کہتی ہیں کہ اسپیکر کی مذاکرات کی تحریری دعوت پر متحدہ اپوزیشن نے قوانین کے معاملے پر اسٹیئرنگ کمیٹی بنائی تاکہ ان پر اتفاقِ رائے پیدا کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے اگر بلز بلڈوز کرنے ہیں تو 21 بلز کے جائزہ کے لیے کمیٹی کیوں بنائی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ مشترکہ اجلاس کے پیچھے حکومت کے غلط مقاصد ہیں۔

حکومت کے اتحادی کہاں کھڑے ہیں

حکومت کی جانب سے گزشتہ ہفتے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے انتخابی اصلاحات کے بل کو منظور کرنے کے فیصلے پر اتحادی جماعتوں مسلم لیگ (ق) اور متحدہ قومی موومنٹ نے اعلانیہ اعتراضات کا اظہار کیا تھا۔

انتخابی اصلاحات اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال سے متعلق بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔

حکومت نے اجلاس کو ملتوی کرتے ہوئے انتخابی اصلاحات کے حوالے سے بل پر اتحادیوں کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا۔ حکومت کی جانب سے اتحادی جماعتوں کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال اور بلز پر بریفنگ دی گئی۔

وزیرِ اعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد منگل کو ایم کیو ایم نے مشترکہ اجلاس میں شرکت اور حکومتی بلز کے حق میں ووٹ کرنے کا اعلان کیا۔

ایم کیو ایم کے رہنما اور وفاقی وزیر امین الحق نے کہا کہ پارٹی کی رابطہ کمیٹی نے مشترکہ اجلاس میں قانون سازی پر حکومت کی حمایت کرے کا فیصلہ کیا ہے۔

تاہم مسلم لیگ (ق) کی جانب سے حکومت کی حمایت سے متعلق کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مسلم لیگ (ق) کے بعض اراکین کل کے اجلاس میں شریک ہوں گے تاہم بعض اراکین نے پارٹی قیادت کو شرکت نہ کرنے کے اپنے فیصلے سے آگاہ کیا ہے۔

یاد رہے کہ تحریک انصاف کی اتحادی حکومت کو پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں قلیل اکثریت حاصل ہے جب کہ ایوان بالا میں حزبِ اختلاف اکثریت رکھتی ہے۔

مشترکہ ایوان میں نمبر گیم کیا ہے؟

سینیٹ اور قومی اسمبلی میں حکومت و حزب اختلاف کی عددی تعداد کا جائزہ لیا جائے تو 442 کے مشترکہ ایوان میں قانون سازی کے لیے 222 ارکان کی حمایت یا ایوان میں موجود ارکان کی اکثریت درکار ہو گی۔

اس وقت قومی اسمبلی میں حکمران جماعت کے اتحادیوں کے ساتھ 180 ووٹ ہیں اور اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتوں کے پاس 158 ووٹ ہیں جب کہ جماعتِ اسلامی کے چار اراکین علیحدہ حیثیت میں موجود ہیں۔

سینیٹ کے 100 ارکان پر مشتمل ایوان میں حزب اختلاف کو 52 جب کہ حکومت کو 48 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔

عددی اعتبار سے دیکھا جائے تو حکومت کو اتحادی جماعتوں کے ساتھ 442 کے مشترکہ ایوان میں 228 کی اکثریت حاصل ہے۔

XS
SM
MD
LG