رسائی کے لنکس

نیند کا بار بار ٹوٹنا مضرِ صحت ہوسکتا ہے: تحقیق


سائنس دان کہتے ہیں کہ صرف نیند کی کمی ہی نہیں بلکہ نیند میں خلل یا نیند کا بار بارٹوٹنا بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔

نیند کی کمی کے حوالے سے کی جانے والی تحقیقات میں یہ امر سامنے آتا رہا ہے کہ نیند کی کمی انسان کی ذہنی اور جسمانی کارکردگی کو بری طرح متاثرکرتی ہے۔

لیکن ایک نئی تحقیق سے منسلک سائنس دان کہتے ہیں کہ صرف نیند کی کمی ہی نہیں بلکہ نیند میں خلل یا نیند کا بار بارٹوٹنا بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔

مطالعے سےپتا چلتا ہے کہ نیند میں خلل انسانی صحت کے لیےاتنی ہی مضرثابت ہو سکتا ہے جتنا کہ ایک رات کےرت جگے سے صحت متاثر ہوتی ہے۔

اس مطالعے میں محققین نے نیند میں خلل کی وجہ سے انسانی صحت پر نمایاں ہونے والے منفی اثرات کو اس کی سوچنے کی صلاحیتوں، بٹی ہوئی توجہ اور مزاج کی خرابی کے ساتھ منسلک کیا ہے ۔

تل ابیب یونیورسٹی کے 'اسکول آف سائیکلوجی اینڈ سائنس' کے اس مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ باوجودیکہ ایک رات میں آپ کی نیند ٹوٹنے کا دورانیہ محض پانچ سے دس منٹ پر مشتمل ہو لیکن نیند میں خلل آجانے سے سونے کے قدرتی نظام میں بھی خلل واقع ہوتا ہے.

مطالعے کی قیادت پروفیسرسعدی نے کی ہے جن کا کہنا ہےکہ چھوٹے بچوں کے والدین جو رات میں بار بار نیند توڑ کر اٹھتے ہیں یا پھر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ جو رات میں بیرونی مداخلت کی وجہ سے بار باربیدار ہوتے ہیں ان میں دن کے وقت میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں میں کمی اور چڑچڑاپن پائے جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

'سلیپ کلینک' سے وابستہ محقق پروفیسر سعدی کہتے ہیں کہ ایک شخص کا رات میں کئی بار بیدار ہونا اگلے دن کی مستعدی، مزاج یا پھر سوچنے کی صلاحیتوں پر کس طرح اثر انداز ہو سکتا ہے، اس موضوع پر ہونےو الی یہ اب تک کی پہلی تحقیق ہے۔

سعدی کی ٹیم نے پتا لگایا ہے کہ نیند میں خلل کی وجہ سے ایک رات کی نیند کو محض مسلسل چار گھنٹے کی نیند کے برابر سمجھا جا سکتا ہے۔

تحقیق میں نیند میں خلل کے منفی اثرات کو انسان کی علمی اور جذباتی رجحانات کے نقصانات کے ساتھ ظاہر کیا گیا ہے۔

یہ تحقیق شعبۂ نفسیات سے تعلق رکھنے والے یونیورسٹی کے 61 رضا کار طلبہ پر کی گئی جن کی عمریں 20 سے 29 سال کے درمیان تھی۔ شرکاء کے رات میں سونے اور جاگنے کے معمولات کااندازہ لگانے کے لیے انھیں گھڑی نما آلہ دیا گیا۔

تجربے کے دوران پہلی رات میں طلبہ نےآٹھ گھنٹے کی نیند مکمل کی جبکہ اگلی رات انھیں چار بار فون کر کے گہری نندد سے جگایا گیا اور دوبارہ سونے سے قبل ایک چھوٹا سا کمپیوٹر ٹاسک مکمل کرنے کے لیے کہا گیا تاکہ انہیں کم از کم دس سے پندرہ منٹ تک جگایا جاسکے۔

طلبہ سے صبح میں کمپیوٹر پر کام کا جائزہ لینے کے لیے کہا گیا اور ان کے مزاج کا جائزہ لینے کے لیے ایک سوالنامہ بھی بھروایا گیا۔

تجربے سے ثابت ہوا کہ شرکا کی تھکان، ڈپریشن، بٹی ہوئی توجہ اور مزاج کے چڑچڑے پن کا براہ راست تعلق نیند میں خلل کے مسئلے کے ساتھ تھا۔

یہ مطالعہ 'جرنل سلیپ میڈیسن ' میں شائع ہوا ہے۔

XS
SM
MD
LG