رسائی کے لنکس

بیساکھی کا تہوار پاکستانی و بھارتی شہریوں کے ملن کا سبب بن گیا


بیساکھی کا تہوار پاکستانی و بھارتی شہریوں کے ملن کا سبب بن گیا
بیساکھی کا تہوار پاکستانی و بھارتی شہریوں کے ملن کا سبب بن گیا

پنجاب کی سر زمین کو "دل والوں کا آشیانہ" کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس میں رہنے والے آج بھی جس لگن کے ساتھ اپنی ثقافت اور جس دریا دلی کے ساتھ اپنے تہواروں سے جڑے ہوئے ہیں وہ دل والوں کا ہی کام ہے۔ سرحد کے اس طرف بسنت جس جوش و جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے اس کی مثال نہیں ملتی جبکہ سرحد کے اس پار جس لگن اور جوش کے ساتھ بیساکھی منائی جاتی ہے اس کے کہنے ہی کیا۔خاص طور پر بیساکھی کاتہوار دونوں جانب کے آدم زادوں کے لئے" ملن کا بہانہ" بن جاتا ہے اور ہر سال اپریل کے مہینے میں ہزاروں سکھ یاتری بیساکھی منانے پاکستان چلے آتے ہیں۔

بیساکھی کا تہوار پاکستانی و بھارتی شہریوں کے ملن کا سبب بن گیا
بیساکھی کا تہوار پاکستانی و بھارتی شہریوں کے ملن کا سبب بن گیا

بیساکھی کا تہوار پاکستان کے شہر حسن ابدال میں اپنے پورے عروج پر ہوتا ہے ۔ حسن ابدال دارلحکومت اسلام آباد سے لگ بھگ پچاس کلومیٹر دور راولپنڈی اور پشاور کو ملانے والے جی ٹی روڈ پرواقع ہے۔ اس شہر کی ایک بڑی وجہ شہرت یہاں واقع سکھ مت کے ماننے والوں کی مقدس عبادت گاہ ’گردوارہ پنجہ صاحب‘ ہے۔اس گرودوارے کا نام پنجہ صاحب اس لئے پڑا کہ یہاں سکھ مت کے بانی بابا گرونانک کے ہاتھ کے پنجے کا نشان ایک پتھر پر منقش ہے ۔اس پتھر اور پنجے کی تقریباً تین سو سالہ پرانی تاریخ ہے۔سکھ مت کے ماننے والوں کے لئے یہ پتھر، یہ نشان اور گرودوارہ نہایت مقدس حیثیت رکھتے ہیں ۔

ہر سال کی طرح اس بار بھی بھارت سے سکھ یاتری بیساکھی کا تہوار منانے کے لئے پاکستان میں موجود ہیں۔اس بار1396سکھ یاتریوں کے لئے حکومت پاکستان کی جانب سے تین خصوصی ٹرینیں چلائی گئی تھیں۔ یاتری بھارت کے سرحدی شہر اٹاری سے ہوتے ہوئے پاکستان کے سرحدی علاقے واہگہ کے راستے اپنی منزل مقصد حسن ابدال پہنچے ۔واہگہ اسٹیشن پریاتریوں کا استقبال پھولوں کی پتیوں پھولوں کے ہاروں سے کیا گیا۔ یاتریوں کی حلوہ پوری‘ چنے‘ آلو کی سبزی اور پراٹھوں سے تواضع کی گئی۔

بیساکھی کا تہوار تین دنوں تک جاری رہتا ہے۔ اس بار اس کا آغاز منگل کو ہوا ۔سکھوں کے مطابق یہ 312ویں سالانہ بیساکھی تقریبات ہیں۔ ان تقریبات کو میلے کی شکل میں منایا جاتا ہے ۔ خواتین اور بچوں کے رنگ برنگے کپڑوں نے میلے کی روایتی رونق میں جان ڈال دی ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق منگل کے روز بیساکھی تقریبات کا آغاز رسم ماتھا ٹیک سے ہوا جس کے بعد گردوارہ روایتی مذہبی نعروں سے گونج اٹھا۔ ہر طرف مرد نیلی پیلی پگڑیوں اور خواتین رنگ برنگے لباسوں سے آراستہ تھیں۔ ملک بھر سے آئے ہزاروں سکھ یاتری بھی ان تقریبات میں موجود ہیں۔ جمعرات14 اپریل کو رسم بھوگ کے ساتھ ہی یہ تقریبات ختم ہوجائیں گی۔

بیساکھی سکھوں کے ایک گروہ خالصہ پنتھ کے قیام اور فصلوں کی کٹائی کی خوشی میں منایا جاتا ہے ۔ فصلوں کی کٹائی کے موقع پر نوجوان کھڑی فصلوں کو کاٹنے سے پہلے کھیتوں میں جاکر ڈھول بجاتے اور بھنگڑا ڈالتے ہیں۔ یہ تہوار زبردست جوش وخروش کے ساتھ منایا جاتا ہے ۔اس دن گردواروں میں دن بھربھجن کیرتن اورسکھوں کے مذہبی گیت 'گروبانی 'گائی جاتی ہے جبکہ لنگر کابھی خاص انتظام کیا جاتا ہے۔

بیساکھی سکھوں کے 10ویں گروگو بند سنگھ کی طرف سے 16ویں صدی میں قائم کئے گئے خالصہ پنتھ کی بنیاد کے حوالے سے بھی منایا جاتا ہے جبکہ اس دن سے فصلوں کی کٹائی کا موسم بھی شروع ہوتا ہے۔

بھارت سے آئے ہوئے سکھ یاتری حسن ابدال کے علاوہ دیگر مقد س مقامات مثلاً گردوارہ جنم استھان ننکانہ صاحب، گردوارہ سچا سودا فاروق آباد،گردوارہ ڈیر صاحب لاہور، گردوارہ روڑی صاحب ایمن آباداورگردوارہ دربار صاحب کرتار پور، نارووال وغیرہ کی بھی زیارت کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG