رسائی کے لنکس

بولان میڈیکل کمپلیکس میں دہشت گردی کی پرچھائیاں


بولان میڈیکل کمپلیکس
بولان میڈیکل کمپلیکس

بیشتر دیواریں گولیوں سے چھلنی ہیں۔ وہ کمرہ جہاں پہلے خودکش بمبار نے ایف سی کے اہلکاروں پر حملہ کیا، اس کی تباہ ہونے والی چھت کی مرمت کا کام بھی تاحال شروع نہیں کیا جاسکا ہے۔

قدرتی وسائل سے مالا مال لیکن پسماندہ ترین پاکستانی صوبہ بلوچستان تقریباً گزشتہ ایک عشرے سے بدامنی کی لپیٹ میں ہے لیکن حالیہ مہینوں میں تشدد کے واقعات میں اضافہ عوام کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والوں کے لیے بھی پریشانی اور دباؤ کا باعث بنتے جا رہے ہیں۔

گزشتہ ماہ دہشت گردوں نے ایک ایسی جگہ کو ہدف بنایا جہاں لوگ صحت و سلامتی کی امید لیے آتے ہیں۔

مرکزی شہر کوئٹہ میں واقع بولان میڈیکل کمپلیکس کو دہشت گردوں نے اس وقت براہ راست خودکش بم حملوں کا نشانہ بنایا جب شہر میں ہونے والے ایک بم دھماکے کے زخمیوں کا یہاں علاج جاری تھا اور بڑی تعداد میں ان کے عزیز و اقارب یہاں موجود تھے۔

ایک ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود اب بھی اسپتال میں اس ہولناک واقعے کی پرچھائیاں نظر آتی ہیں۔ بیشتر دیواریں گولیوں سے چھلنی ہیں۔ وہ کمرہ جہاں پہلے خودکش بمبار نے ایف سی کے اہلکاروں پر حملہ کیا، اس کی تباہ ہونے والی چھت کی مرمت کا کام بھی تاحال شروع نہیں کیا جا سکا ہے۔


حملہ آوروں کے خلاف کارروائی میں مصروف سکیورٹی اہلکار
حملہ آوروں کے خلاف کارروائی میں مصروف سکیورٹی اہلکار

اسپتال کے مختلف کمروں کی تباہ ہونے والی کھڑکیاں اور دروازے بھی ابھی تک مرمت کے منتظر ہیں۔

بولان میڈیکل کالج کے نائب منتظم اعلیٰ (ڈی ایم ایس) ڈاکٹر عبدالحق شیرانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ اس دہشت گردانہ واقعے کے بعد سے ڈاکٹروں سمیت اسپتال کا دیگر عملہ عدم تحفظ اور اضطراب کا شکار ہے۔

’’ایک ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود اسپتال کا سارا عملہ صحیح طریقے سے کام نہیں کر پارہا، سکیورٹی کے خصوصی اقدامات کے لیے بارہا انتظامیہ سے درخواست کی گئی ہے لیکن اس میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی ہے۔‘‘

صوبائی حکومت امن و امان کے قیام کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتی ہے اور اس کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد کار بڑھانے کے علاوہ خصوصی فورس بھی تشکیل دی گئی ہے۔

بولان میڈیکل کمپلیکس کی ایک خاتون ڈاکٹر ذکیہ جمالی نے بھی یہاں کے عملے میں پائے جانے والے خوف کا تذکرہ کیا۔ دیگر ڈاکٹروں نے بھی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ایسے ہی خدشات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’زخمیوں کی زندگی قیمتی ہے مگر ہماری جان بھی قیمتی ہے اس کا بھی خیال رکھیں۔‘‘

اسپتال کے ڈی ایم ایس ڈاکٹر شیرانی نے لوگوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب کسی مریض یا زخمی کو اسپتال لایا جاتا ہے تو پھر باقی کام ڈاکٹروں پر چھوڑ دیں تاکہ وہ اس کی طبی امداد دے کر جان بچا سکیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ اگر ایک مریض یا زخمی کے ساتھ بڑی تعداد میں لوگ اسپتال آتے ہیں تو اس سے ڈاکٹروں اور طبی عملے کے کام میں خلل پڑتا ہے اور یہ ان کے بقول سکیورٹی کے نکتہ نظر سے بھی درست عمل نہیں ہے۔
XS
SM
MD
LG