رسائی کے لنکس

بلوچستان: صوبائی کابینہ میں 11 وزراء کی شمولیت


QUETTA: April 08 – A view of Balochistan Assembly during Speaker and Deputy Speaker elections during the session. APP photo by Mohsin Naseer
QUETTA: April 08 – A view of Balochistan Assembly during Speaker and Deputy Speaker elections during the session. APP photo by Mohsin Naseer

بلوچستان حکومت کے ترجمان کہتے ہیں کہ جزوی کابینہ کی وجہ سے گزشتہ چار ماہ کے دوران صوبائی حکومت ترقیاتی منصوبوں سمیت مختلف شعبوں میں اُس انداز میں کام نا کر سکی جس کا اس نے ارادہ کر رکھا تھا۔

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پیر کو 11 نئے وزراء نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا اور ان کی شمویت کے بعد صوبائی کابینہ کے ارکان کی مجموعی تعداد 14 ہو گئی ہے۔

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے جون میں وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد اپنی کابینہ کے لیے ابتدائی طور پر تین وزراء کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد صوبائی کابینہ میں توسیع کے لیے مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں سے مشاورت کا عمل مسلسل جاری رہا۔

بلوچستان حکومت کے ترجمان جان محمد بُلیدی نے وائس اف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جزوی کابینہ کی وجہ سے گزشتہ چار ماہ کے دوران صوبائی حکومت ترقیاتی منصوبوں سمیت مختلف شعبوں میں اُس انداز میں کام نا کر سکی جس کا اس نے ارادہ کر رکھا تھا۔

جان محمد بلیدی کا کہنا تھا کہ کابینہ کی تشکیل مکمل ہونے کے ساتھ ہی صوبائی حکومت اپنی حکمت عملی پر بھرپور عمل درآمد کے قابل ہو گئی ہے اور آنے والے دنوں میں بلوچستان کے حلات میں نمایاں بہتی نظر آئے گی۔

اُنھوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت کی اوالین ترجیح صوبے میں قیامِ امن کی کوششوں میں پیش رفت ہوگی۔

صوبائی ترجمان نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان واضح کر چکے ہیں کہ عید الاضحٰی کے بعد کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا جس میں سیاسی رہنما امن و امان سے متعلق لائحہ عمل وضح کریں گے۔ تاہم اُنھوں نے اس بارے میں کسی حتمی تاریخ کا ذکر نہیں کیا۔

حقوقِ انسانی سے متعلق ملک کی موقر غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی اپنی حالیہ رپورٹ میں وفاقی و صوبائی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ بلوچستان میں سرگرم علیحدگی پسند جنگجوؤں سے مذاکرات کے ذریعے امن بحال کرنے کی کوشش کی جائے۔

صوبے میں سیاسی بے چینی کے مذاکراتی حل کے لیے وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نے گزشتہ ماہ لندن کا دورہ بھی کیا تھا جہاں اُنھوں نے ناراض بلوچ علیحدگی پسند رہنماؤں سے ملاقاتوں کا عندیہ بھی دیا تھا۔ لیکن اس بارے میں باضابطہ طور پر کسی پیش رفت کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔

بلوچستان کئی سالوں سے شدت پسندوں کی کارروائیوں کی زد میں ہے، جن کا اکثر نشانہ سکیورٹی فورسز اور دیگر سرکاری اہداف بنتے ہیں۔

صوبے کے جنوبی ضلع خضدار میں پیر کو بھی پولیس کے ایک انسپکٹر نثار احمد مینگل کو نا معلوم موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا جبکہ زلزلہ زد علاقے مشکے میں متاثرین کی مدد کرنے والے پاک فوج کے بلوچ رجمنٹ کے اہلکاروں پر بھی نامعلوم حملہ آوروں نے فائرنگ کر کے ایک شخص کو زخمی کر دیا۔
XS
SM
MD
LG