رسائی کے لنکس

بلوچستان میں چار مدارس سربمہر


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اکبر حسین درانی نے بتایا کہ جن مدارس کو سیل گیا ہے اُن کے منتظمین کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔

انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل کے تحت بلوچستان کی صوبائی حکومت نے کوئٹہ میں قائم چار مدارس کو سیل کر دیا ہے جب کہ صوبے کے بعض دیگر علاقوں میں قائم تقریباً تین درجن کے قریب مدارس کوواچ لسٹمیں شامل کر اُن کی نگرانی شروع کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ صوبائی حکومت نے بلوچستان میں نفرت و اشتعال انگیز مواد، یعنی کتب، پمفلٹ اور سی ڈیز رکھنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کو تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

صوبائی سیکرٹری داخلہ اکبر حُسین درانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جن چار مدارس کو سیل کیا گیا ہے اُن کی کچھ عرصے سے نگرانی کی جا رہی تھی اور اُن کے بقول ٹھوس شواہد کی بنیاد پر ہی یہ کارروائی کی گئی ہے۔

اکبر حسین درانی نے بتایا کہ جن مدارس کو سیل گیا ہے اُن کے منتظمین کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ صوبے میں کسی کو بھی کسی مسلک کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

’’چاہے وہ مدارس ہوں چاہے اسکولز ہوں، چاہے وہ کوئی بھی جگہ ہو، جہاں دہشت گردوں کے لیے کسی سہولت کاری کا انتظام کیا جاتا ہے۔۔۔۔ اُن کے خلاف ہم کاروائی ضرور کرتے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔‘‘

کوئٹہ میں ایک مدرسہ نعمانیہ کے مہتمم مولانا عبدالقادر لونی کا کہنا ہے کہ وفاقی یا صوبائی حکومتوں میں سے کوئی بھی مدارس کو کسی بھی مد میں کوئی امدادی رقم نہیں دیتا اور ایسی صورت میں اُن کے بقول حکومت کی طرف سے مدارس پر پابندیوں کا کو ئی جواز نہیں۔

’’جو مدارس بند کیے گئے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت اس پے نظر ثانی کرے، وہ اہل مدارس کے ساتھ بیٹھ جائیں ہمارے ساتھ مذاکرات کرے اگر کوئی ایسا ثبوت وہ پیش کرتے ہیں تو ہم خود اہل مدارس اُس مدرسے سے کہیں گے کہ وہ رضا کارانہ طور پر بند کر دے۔‘‘

بلوچستان میں اس وقت مدارس کی تعداد دو ہزار سے زائد بتائی گئی ہے، نیشنل ایکشن پلان کے تحت ان مدارس کی چھان بین اور غیر اندارج مدارس کی رجسٹریشن کا عمل ایک سال گزرنے کے باجود نہیں ہو سکا ہے۔

حکام کے مطابق صوبے میں قائم مدارس میں زیر تعلیم بچوں کی تعداد لگ بھگ ایک لاکھ 40 ہزار ہے جن میں پانچ ہزار سے زائد غیر ملکی طالب علم بھی شامل ہیں جن کی اکثریت کا تعلق افغانستان سے ہے۔

XS
SM
MD
LG