رسائی کے لنکس

وزیرِ اعلیٰ بلوچستان عہدے سے مستعفی


وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری (فائل فوٹو)
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری (فائل فوٹو)

ثناء اللہ زہری نے منگل کی دوپہر گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی سے ملاقات کی اور انہیں اپنا استعفی پیش کیا جسے گورنر نے فوراً منظور کرلیا۔

بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں اور انہوں نے اپنا استعفیٰ گورنر بلوچستان کو پیش کردیا ہے۔

وزیرِ اعلیٰ نے اپنا استعفیٰ اپنے خلاف صوبائی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد پیش کیے جانے سے چند گھنٹے قبل دیا ہے۔

ثناء اللہ زہری نے منگل کی دوپہر گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی سے ملاقات کی اور انہیں اپنا استعفی پیش کیا جسے گورنر نے فوراً منظور کرلیا۔

ثناء اللہ زہری نے اپنے ایک بیان میں استعفے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے تمام ارکان کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی لیکن اب بعض وجوہات کی بنا پر ان کی اپنی جماعت کے ساتھی ان کے ساتھ نہیں رہے۔

بیان میں نواب زہری نے کہا ہے کہ وہ زبردستی اپنے ساتھیوں پر مسلط رہنا نہیں چاہتے اور نہ ہی چاہتے ہیں کہ صوبے کی سیاست ان کی وجہ سے مزید خراب ہو لہذا وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہورہے ہیں۔

وزیرِ اعلیٰ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) میں پھوٹ پڑگئی تھی اور کئی وزرا سمیت حکمران جماعت کے کئی ارکانِ اسمبلی نے بھی تحریک کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔

اس کے علاوہ حکمران اتحاد میں شامل مسلم لیگ (قائدِ اعظم) کے ارکان بھی عدم اعتماد کی تحریک پر حزبِ اختلاف کے ارکان کی حمایت کر رہے تھے۔

نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد منگل کو صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کی جانی تھی جس کی منظوری کے لیے کم از کم 33 ووٹ درکار تھے۔

اس سے قبل صوبائی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مولانا عبدالواسع نے دعویٰ کیا تھا کہ تحریکِ عدم اعتماد پر انہیں ایوان کے 65 میں سے 41 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔

منگل کو صحافیوں سے گفتگو میں مولانا عبدالواسع نے دعویٰ کیا تھا کہ وزیرِ اعظم کی طرف سے حزبِ اختلاف اور مسلم لیگ (ن) سے الگ ہونے والے ارکانِ اسمبلی کو بھی ملاقات کی دعوت موصول ہوئی تھی جسے باہمی مشورے کے بعد مسترد کر دیا گیا تھا۔

وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریکِ عدم کے تناظر میں وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے پیر کو کوئٹہ میں وزیرِ اعلیٰ اور اُن کا ساتھ دینے والے مسلم لیگ (ن)، پشتونخوا میپ اور نیشنل پارٹی کے ارکانِ اسمبلی سے ملاقات کی تھی۔

بلوچستان کی اسمبلی کے ارکان کی کل تعداد 65 ہے جس میں مسلم لیگ (ن) کے 21، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے 14، نیشنل پارٹی کے 10، مسلم لیگ (ق) کے پانچ، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آٹھ، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے دو جب کہ عوامی نیشنل پارٹی، بی این پی عوامی اور مجلسِ وحدتِ مسلمین کا ایک، ایک رکن اور دو آزاد ارکان شامل ہیں۔

وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کے خلاف دو جنوری کو مسلم لیگ (ن) کے صوبائی پارلیمانی گروپ کے بعض ارکان نے حزبِ اختلاف کے ساتھ مل کر 14 ارکانِ اسمبلی کے دستخطوں سے عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے لیے نوٹس اسپیکر بلوچستان اسمبلی کو بھیجا تھا۔

جے یو آئی کے آٹھ، مسلم لیگ ق کے پانچ، بی این پی کے دونوں دھڑوں کے تین، اے این پی اور مجلس وحدتِ مسلمین کا ایک ایک، ایک آزاد رکن اور مسلم لیگ ن کے پارلیمانی گروپ سے الگ ہونے والے ارکان قرارداد کی حمایت کر رہے تھے۔

XS
SM
MD
LG