رسائی کے لنکس

بلوچستان میں رواں سال آٹھ ہزار مشتبہ شدت پسندوں کو گرفتار کیا گیا: صوبائی حکام


صوبائی حکام کے مطابق گزشتہ دسمبر سے اب تک ایک ہزار سے زائد کارروائیوں میں آٹھ ہزار سے زائد لوگوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔

پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کو ایک دہائی سے زائد عرصے سے شورش پسندی اور دہشت گردی کا سامنا ہے اور یہاں بھی ملک کے دیگر حصوں کی طرح سکیورٹی فورسز شر پسند عناصر کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔

صوبائی حکام کے مطابق گزشتہ دسمبر سے اب تک ایک ہزار سے زائد کارروائیوں میں آٹھ ہزار سے زائد لوگوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔

صوبائی سیکرٹری داخلہ اکبر حسین درانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ یہ کارروائیاں انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کی جاتی رہی ہیں اور ان میں دو سو سے زائد مشتبہ دہشت گردوں اور شدت پسندوں کو ہلاک بھی کیا جا چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والوں میں مختلف کالعدم شدت پسند، بلوچ عسکری اور مذہبی انتہا پسند تنظیموں کے لوگوں کے علاوہ ان کے معاونین بھی شامل ہیں۔

’’یہ آپریشن صرف شدت پسندوں کے خلاف نہیں کیے گیے۔۔۔ بلکہ اس میں وہ لوگ بھی تھے جہنوں نے لاؤڈ اسپیکر کو غلط طریقے سے استعمال کیا تھا ۔۔۔ اس سے بہتری یہ آئی کہ لوگوں میں اعتماد پیدا ہوا۔ ان کارروائیوں میں سے 60 فیصد انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کی گئیں۔‘‘

ان کارروائیوں میں بڑی مقدار میں اسلحہ اور خطرناک ہتھیار بھی برآمد کیے گئے۔

قدرتی وسائل سے مالا مال لیکن ملک کے پسماندہ ترین صوبے بلوچستان میں قیام امن کے لیے سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے علاوہ حال ہی میں پرامن بلوچستان کے نام سے ایک پالیسی بھی متعارف کروائی گئی ہے جس کے تحت مزاحمت کا راستہ ترک کر کے ریاست کی عملداری کو تسلیم کرنے والوں کے لیے عام معافی اور مالی مراعات کا اعلان کیا گیا۔

حالیہ ہفتوں میں سیکڑوں افراد ہتھیار ڈال کر اس پالیسی سے مستفید ہو چکے ہیں۔

اس کے علاوہ ناراض بلوچ رہنماؤں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے بات چیت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

XS
SM
MD
LG