رسائی کے لنکس

بلوچستان یونیورسٹی سے ایف سی اہلکاروں کو نکالنے کی تیاریاں تیز


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بلوچستان یونیورسٹی سے فرنٹیر کور (ایف سی) کے اہلکاروں کو نکالنے کی تیاریاں تیز کر دی گئی ہیں۔ طالب علموں کو ہراساں کرنے کے مقدمے کی سماعت کے بعد جامعہ میں نیم سیکیورٹی فورس کے اہلکاروں کی سرگرمیاں 80 فی صد تک کم ہو گئی ہیں۔

جامعہ بلوچستان کے کچھ طلبہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ ہراسگی کے واقعات منظر عام پر آنے سے قبل جامعہ بلوچستان کے احاطے میں سیکیورٹی اداروں اور پولیس کے اہلکار عام نظر آتے تھے جو طلبہ کے ساتھ کافی سختی سے پیش آتے تھے۔ لیکن اب صورتِ حال بہتر ہوتی جارہی ہے۔

سیکیورٹی اہلکار اب جامعہ بلوچستان کے مرکزی دروازوں پر یا ہاسٹل اسپورٹس کمپلیکس میں موجود ہیں۔ جامعہ بلوچستان کے اساتذہ کی تنظیم اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے ایک عہدے دار نے یونیورسٹی کے احاطے میں سیکیورٹی اہلکاروں کی سرگرمیوں میں کمی کی تصدیق کی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بلوچستان اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں وہ بھی پیش ہوئے تھے۔ کمیٹی اراکین نے ارادہ ظاہر کیا ہے کہ وہ سیکیورٹی فورسز کو جامعہ بلوچستان کی حدود سے جلد نکالنے کی کوشش کریں گے۔

دوسری جانب جامعہ بلوچستان کے قائم مقام وائس چانسلر کے پرائیویٹ سیکریٹری نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ فی الحال ادارے سے مکمل فورس کو واپس بھیجنے کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔ یہ مقدمہ بلوچستان ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔ لہٰذا عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد اس حوالے سے مؤثر اور ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے۔

خیال رہے کہ بلوچستان یونیورسٹی کے طالب علموں کو ہراساں کرنے کے اسکینڈل سے متعلق مقدمے کی سماعت منگل کو بلوچستان ہائی کورٹ میں ہوئی تھی جب عدالت میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حکام نے اپنی تفتیشی رپورٹ پیش کی۔

ایف آئی اے نے اپنی رپورٹ میں عدالت کو بتایا ہے کہ ہراسگی کے الزامات سے متعلق یونیورسٹی کے کچھ ملازمین اور ایک پرائیویٹ سیکیورٹی ادارے کے اہلکاروں سے تفتیش کی گئی ہے اور اُن کے بیانات ریکارڈ کیے ہیں۔ البتہ اب تک کسی فرد کو حراست میں نہیں لیا گیا ہے۔

ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا ہے کہ بلوچستان یونیورسٹی میں جنسی ہراسگی سے متعلق شکایات درج کرانے کے لیے کوئی فورم موجود نہیں جب کہ سی سی ٹی وی کیمرے اور کنٹرول روم چلانے کے لیے بھی کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔

ڈپٹی ایڈووکیٹ جنرل طاہر کاسی نے عدالت کو بتایا کہ جامعہ بلوچستان میں ہراسگی کا اسکینڈل سامنے کے آنے کے چند روز بعد اب طالب علموں کو بلیک میل کرنے کا ایک نیا کیس سامنے آگیا ہے جس کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے نظام کی وجہ سے متاثرہ طالبات سامنے نہیں آرہی ہیں۔ جس پر چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ اگر یہی ماحول ہے، تو ہم زندہ رہنے کے قابل نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عوام اپنے اداروں پر اعتماد کریں۔ ذمّہ داروں کے خلاف کارروائی ضرور ہوگی۔

عدالت نے جامعہ بلوچستان کے قائم مقام وائس چانسلر کو ہدایت کی کہ وہ اس کیس کی تحقیقات کا دائرہ مزید وسیع کریں اور جتنے بھی لوگ اس کیس میں ملوث ہوں، اُن تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت 15 روز کے لیے ملتوی کر دی۔

خیال رہے کہ جامعہ بلوچستان کے طالب علموں کو خفیہ کیمروں کی فوٹیج کے ذریعے ہراساں کرنے کا معاملہ دو ہفتے قبل سامنے آیا تھا جس کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سائبر کرائم ونگ نے اس اسکینڈل کی تحقیقات شروع کی تھیں۔

ادھر بلوچ وکلاء فورم کے نائب صدر غلام رسول نے میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا ہے کہ انہوں نے عدالت کو بتایا ہے کہ یونیورسٹی کی اپنی سیکیورٹی موجود ہے۔ اس لیے وہاں کسی دوسری سرکاری فورس کی ضرورت نہیں۔

ان کے بقول جب تک ہمارے تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی فورسز کی مداخلت نہیں تھی، ہمارے تعلیمی ادارے صحیح چل رہے تھے۔

XS
SM
MD
LG