رسائی کے لنکس

مولانا فضل الرحمٰن کی میڈیا کوریج پر پابندی رہی تو آزادی مارچ میں کیا ہوگا؟


جے یو آئی (ف) کے کارکن کئی روز سے آزادی مارچ کی تیاریوں میں مصروف ہیں — فائل فوٹو
جے یو آئی (ف) کے کارکن کئی روز سے آزادی مارچ کی تیاریوں میں مصروف ہیں — فائل فوٹو

پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی کسی بھی قسم کی پریس کانفرنس یا میڈیا ٹاک ٹی وی چینلز پر نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔

اس پابندی سے متعلق احکامات تمام چینلز کو بذریعہ واٹس ایپ بھجوائے گئے۔

مبینہ طور پر پیغامات ملنے کے بعد پابندی سے آگاہ کرنے کے لیے باقاعدہ فون کالز بھی کی گئیں۔

پابندی سے متعلق وزیر اعظم عمران خان کی مشیر برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی تشکیل کے بعد پیمرا کے حوالے سے جو ضابطہ کار بنائے گئے ہیں، ان کے مطابق پیمرا کو آج کسی حکومتی ہدایت کی ضرورت نہیں ہے۔

نجی ٹی وی چینل ‘جیو نیوز’ نے اپنی معمول کی نشریات کے دوران شام پانچ بجے مولانا فضل الرحمٰن کی پریس کانفرنس چند لمحے چلانے کے بعد روک دی اور نیوز کاسٹر نے اعلان کیا کہ پیمرا کی طرف سے عائد کی جانے والی پابندی کے باعث ہم آپ کو مولانا فضل الرحمٰن کی یہ پریس کانفرنس دکھانے اور سنانے سے قاصر ہیں۔

کئی دیگر چینلز نے بھی یہی طریقہ کار اپنایا اور چند لمحوں کے لیے مولانا فضل الرحمٰن کی پریس کانفرنس دکھانے کے بعد دیگر خبریں نشر کرنا شروع کر دیں۔

نجی چینل '24 نیوز’ کے ڈائریکٹر نیوز میاں طاہر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اس پابندی کی تصدیق کی۔ میاں طاہر کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کی کوئی بھی خبر چلانے کے حوالے سے پیمرا کی طرف سے پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

میاں طاہر نے پابندی سے متعلق واٹس ایپ پیغامات اور براہ راست ٹیلی فونز کالز کی بھی تصدیق کی۔

انہوں نے بتایا کہ یہ پابندی تمام چینلز پر عائد کی گئی ہے۔

اس سوال پر کہ کیا یہ پابندی قانونی ہے؟ میاں طاہر کا کہنا تھا کہ ہمارے نزدیک یہ پابندی خلاف قانون ہے کیونکہ کسی بھی سیاسی شخصیت کی سیاسی گفتگو اور بات چیت کو دکھانے سے روکنے کے لیے پیمرا کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔

نجی چینل کے ڈائریکٹر نیوز کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے پاس ڈیلے سسٹم موجود ہے اور اگر کوئی قابل اعتراض بات ہو تو اسے روکا جا سکتا ہے لیکن کسی سیاسی رہنما کو بالکل ہی دکھانے اور سنانے سے روک دینا، بنیادی آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

آئندہ چند روز میں آزادی مارچ کی کوریج کے سوال پر میاں طاہر نے کہا کہ ہم اس سلسلے میں حکومت سے بات کرنے پر غور کر رہے ہیں کہ اس مارچ کے حوالے سے پابندی عائد نہ کی جائے کیونکہ ماضی میں جب تحریک انصاف کا دھرنا تھا تو تمام چینلز نے اس کی بھر پور کوریج کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ کسی اور سیاسی جماعت کی اتنی بڑی سیاسی سرگرمی کو نظر انداز کرنا نہ تو ہمارے لیے ممکن ہے اور نہ ہی ہمارے ناظرین کے لیے ممکن ہے۔

حکومتی ردعمل

اسلام آباد میں منعقدہ نیوز کانفرنس میں فردوس عاشق اعوان سے جب مولانا فضل الرحمٰن پر لگائے جانے والی پابندی کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے براہ راست اس کی تصدیق نہیں کی۔

فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان بننے کے بعد اس حوالے سے ٹی او آرز سیٹ ہوئے تھے، جو تمام شراکت داروں بشمول پیمرا کو بھی فراہم کر دیے گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیمرا کو آج کسی حکومتی ہدایت کی ضرورت نہیں، بلکہ پیمرا ان اتفاق شدہ ٹی او آر پر خود عمل کر رہا ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ باقاعدہ ایک لشکر بنا کر لشکر کشی کرنے والوں اور ملک میں انتشار پھیلانے والوں کو اس طرح دکھایا جا سکے۔ اس سلسلہ میں پیمرا اپنا کردار خود ادا کر رہا ہے۔

نیوز کانفرنس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سال 2014 میں ہونے والے اپنے دھرنے کے حوالے سے کہا کہ اس دھرنے کے دوران ایک گملا بھی نہیں ٹوٹا تھا، جس پر صحافیوں نے پی ٹی وی کی آواز لگائی تو اس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ تحریک انصاف نے پی ٹی وی پر کوئی حملہ نہیں کیا۔ یہ صرف الزام ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ ہاؤس کا جنگلا بھی نہیں ٹوٹا تھا میں نے قومی اسمبلی میں ان الزامات کی تردید کی تھی۔

مذاکرات کی پیش کش مسترد

دوسری جانب مولانا فضل الرحمٰن نے بھی حکومت کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش مسترد کر دی ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن کہا ہے کہ حکومتی لوگ غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں۔

جے یو آئی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ حکومت کے تمام حربے ناکام ہوچکے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم کے استعفیٰ سے پہلے حکومت سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئین کی حکمرانی اور اداروں کا حدود میں رہ کر کام کرنے کے مطالبے پر دوسری رائے نہیں ہو سکتی۔ قوم نے 13 ماہ میں جعلی الیکشن کے نتائج دیکھ لیے ہیں۔ اب پوری قوم کی ایک ہی آواز ہے کہ نئے الیکشن کرائے جائیں۔

مولانا فضل الرحمن نے مزید کہا کہ انتخابات کے بعد جو بھی نتائج ہوں اور جو بھی جیتے، نتائج قبول کریں گے۔

پاکستان میں میڈیا پر پابندیاں

پاکستان میں مولانا فضل الرحمٰن کو میڈیا پر دکھانے پر پابندی کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ ماضی میں بھی ایسے احکامات نیوز چینلز کو موصول ہوتے رہے ہیں۔

ماضی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کے جلسوں کی کوریج سے بھی مبینہ طور پر میڈیا کو منع کیا گیا تھا۔

ایک مرتبہ تین چینلز کو بغیر کسی نوٹس کے کیبل آپریٹرز کے ذریعے بند کروا دیا گیا تھا۔ ان چینلز کے مطابق، انہیں مریم نواز کے جلسے کی براہ راست کوریج دینے کی وجہ سے بند کیا گیا تھا۔

نجی ٹی وی چینل ‘جیو نیوز’ پر پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کے انٹرویوز بھی بغیر کسی وجہ کے نشر کرنے سے روک دیے گئے تھے۔

مولانا فضل الرحمٰن کو دکھانے پر باقاعدہ پابندی کا پہلی بار کہا گیا ہے۔ اس سے قبل ماضی میں بھی ان کی کئی نیوز کانفرنسز نہیں دکھائی گئیں۔

بعض چینلز اس سلسلہ میں سیلف سنسر شپ سے بھی کام لیتے رہے ہیں اور کسی بھی متنازع معاملے کو چینلز پر بالکل نشر ہی نہیں کیا جاتا۔

XS
SM
MD
LG