رسائی کے لنکس

بحیرہ چین کے تنازعات کے حل کے لیے ایک مثال


امریکی بحریہ کے ایڈمرل سیموئیل لوکلیئر نے جو اس مہینے بنگلہ دیش کے دورے پر گئے تھے، برما اور بنگلہ دیش کے درمیان علاقائی سمجھوتے کی تعریف کی، اور اسے چین کے ساتھ تنازعات طے کرنے کا بڑا اچھا ماڈل قرار دیا ۔

خلیجِ بنگال کے ایسے علاقوں میں تیل اور گیس کی تلاش شروع ہونے والی ہے جن کے بارے میں بنگلہ دیش اور برما کے درمیان تنازع رہ چکا ہے ۔ اس جھگڑے کے پُر امن تصفیے کو چین اور اس کے ہمسایوں کے درمیان سمندری علاقوں کے ایسے ہی تنازعات کے لیے ماڈل قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بیجنگ کے ساتھ جو اختلافات ہیں وہ کہیں زیادہ مشکل ہیں۔

بنگلہ دیش اور برما بڑی بے چینی سے غیر ملکی کمپنیوں کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ بولی لگائیں اور خلیجِ بنگال میں ممکنہ طور پر تیل اور گیس سے مالال مال علاقوں میں تلاش کا کام شروع کریں۔

اس علاقے میں اب تک تیل اور گیس کی تلاش کا کام نہیں ہوا ہے کیوں گذشتہ تین عشروں سے اس کے بارے میں سخت تنازع چل رہا تھا اور کبھی کبھی دونوں ملکوں کی بحری فوج کے درمیان کشیدگی پیدا ہو جاتی تھی۔ لیکن 2009 میں، دونوں ملک اس تنازع کو ہیمبرگ میں سمندر کے قانون کے بین الاقوامی ٹریبیونل کے سامنے لے جانے پر رضا مند ہو گئے۔

اس سال مارچ میں، اس ٹریبیونل نے ہر ملک کے علاقے کی وضاحت کر دی اور دونوں فریقوں نے اسے قبول کر لیا ۔ ٹریبیونل کے رجسٹرار فلپ گوٹیئے کہتے ہیں کہ اب غیر ملکی سرمایہ کاروں میں اس علاقے کے بارے میں کافی دلچسپی ہونی چاہیئے ۔

’’جن کمپنیوں کو پرمٹ اور لائسنسوں کی ضرورت پڑتی ہے، وہ سکیورٹی چاہتی ہیں۔ پرائیویٹ کمپنیوں کے لیے قانونی سکیورٹی پہلا عنصر ہے جسے سامنے رکھنا پڑتا ہے۔ ‘‘

ٹریبیونل کے فیصلے کے مطابق، بنگلہ دیش کو زیادہ سمندری علاقہ ملا جب کہ مجموعی اعتبار سے برما کو زیادہ علاقہ ملا۔

اگرچہ اس قسم کی اطلاعات ملی تھیں کہ برما کے عہدے دار ٹریبیونل کے فیصلے سے خوش نہیں تھے، لیکن گوئٹیئے کہتے ہیں کہ دونوں فریقوں نے اطمینان کا سانس لیا کہ یہ جھگڑا بالآخر طے پا گیا۔

’’ٹریبیونل کے لیے بحری علاقوں کی حد بندی کا یہ پہلا موقع تھا۔ یہ پہلا کیس ہے جس میں 200 بحری میل سے آگے کے علاقے کی حد بندی کی گئی۔ ٹریبیونل کے سامنے ایشیائی ملکوں کا اس قسم کا پہلا کیس آیا تھا۔ میرے خیال میں اس کیس سے، مستقبل میں ٹریبیونل کے لیے اس قسم کے تنازعات سے نمٹنے کی راہ کھل گئی ہے۔‘‘

گوئٹیئے کہتے ہیں کہ ٹریبیونل مشرقی چین اور جنوبی چین کے سمندروں میں قدرتی وسائل سے مالا مال علاقوں میں اس قسم کے تنازعات کو طے کرنے کو تیار ہے، اگر متعلقہ ممالک اس کے لیے تیار ہوں۔ بیجنگ اور ٹوکیو کے درمیان جزائر کے ایک چھوٹےسے سلسلے کے بارے میں، جنہیں چین میں ڈیاؤیو اور جاپان میں سنکاکس کہا جاتا ہے، سخت کشیدگی موجود ہے ۔

اس سال کے شروع میں، چین اور فلپائن کے درمیا ن تعلقات خراب ہو گئے تھے جب ان کے بحری جہاز ساؤتھ چائنا سی کے متنازع علاقے میں آمنے سامنے کھڑے تھے۔ اس قسم کے واقعات سے بین الاقوامی سطح پر، خاص طور سے امریکہ کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کیوں کہ جاپان اور فلپائن کے ساتھ اس کے سکیورٹی کے معاہدے ہیں۔

امریکی بحریہ کے ایڈمرل سیموئیل لوکلیئر نے جو اس مہینے بنگلہ دیش کے دورے پر گئے تھے، برما اور بنگلہ دیش کے درمیان علاقائی سمجھوتے کی تعریف کی، اور اسے چین کے ساتھ تنازعات طے کرنے کا بڑا اچھا ماڈل قرار دیا۔ انھوں نے منگل کے روز بنکاک میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا۔

انھوں نے کہا’’ان تنازعات کو پُر امن طریقے سے حل کرنا چاہیئے ، یعنی ان کے تصفیے میں دباؤ نہیں ڈالا جانا چاہیئے۔ ہماری ترجیح یہ ہوگی کہ ان کے تصفیے میں قانون کی حکمرانی کا طریقہ اپنایا جانا چاہیئے۔ ایسا کرنے کے طریقے موجود ہیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ اس تنازعے میں جو فریق ہیں، وہ ایسا ہی کریں گے۔‘‘

لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایسٹ اور بحیرہ جنوبی چین کے تنازعات، خلیج ِ بنگال کے تنازعات کے مقابلے میں کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں۔

چین ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے، اور وہ تقریباً پورے بحیرہ جنوبی چین کا دعویدار ہے۔ اس طرح برونائی، ملائیشیا اور فلپائن کے دعوؤں سے اس کا ٹکراؤ ہوتا ہے۔ بیجنگ کا کہنا ہے کہ وہ بین الاقوامی ثالثی کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے اور دو طرفہ مذاکرات کو ترجیح دیتا ہے۔

سنگا پور میں قائم انرجی اسٹیڈیز انسٹیٹیوٹ کے تجزیہ کار فلپ انڈریوز اسپیڈ کہتے ہیں کہ بعض ایسے منفرد عوامل تھے جن کی وجہ سے بنگلہ دیش اور برما کے درمیان سمجھوتہ ممکن ہوا۔

’’میرے خیال میں میانمار میں نظامِ حکومت میں جو حالیہ تبدیلی آئی ہے اس کے نتیجے میں وہاں پابندیاں کم ہوئی ہیں اور ہمسایہ ملک بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات زیادہ قابلِ اعتبار خطوط پر استوار ہوئے ہیں۔ اس کا موازنہ مشرقی ایشیا کے بعض دوسرے تنازعات سے کیجیئے ۔ یہ دونوں ملک بہت غریب ہیں، اور ان میں سے کوئی بھی دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کا خواہش مند نہیں ہے۔ اس لیے، میرے خیال میں، ایک جیسے ملکوں کے لیے ، باہم فائدے کی خاطر، ایک دوسرے کے قریب آجانا کہیں زیادہ آسان ہے۔‘‘

توانائی کے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ تیل اور گیس کی بہت سی غیر ملکی کمپنیوں نے بنگلہ دیش اور برما کے علاقوں میں تیل کی تلاش میں دلچسپی ظاہر کی ہے ۔

اینڈریوز اسپیڈ تیل کی تلاش کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ توقعات کے باوجود، اس سلسلے میں احتیاط سے کام لینا بہتر ہو گا۔ یہ معلوم کرنے میں کہ کتنا تیل اور کتنی گیس پیدا کی جا سکتی ہے، اور اسے نکالنے اور منتقل کرنے کے لیے کس قسم کے بنیادی ڈھانچے کی ضرورت ہو گی، بہت وقت لگ سکتا ہے۔
XS
SM
MD
LG