رسائی کے لنکس

بر صغیر ہند و پاک کے مشہور ادیب اور محقق سید مسعود حسین رضوی


سید مسعود حسین رضوی ادیب اردو تحقیق و تنقید کے میدان کا ایسا نام ہے کہ ان کا ذکر آتے ہی ان کے ارشادات پر اعتبار کیا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے جو کچھ لکھا اور جو کچھ کہا وہ گہری فکر و جستجو کا نتیجہ ہے۔ اسی لئے ان کی کتابوں کو بر صغیر ہندو۔ پاک میں نہ صرف حرف آخر سمجھا جاتا ہے بلکہ پورے اعتماد کے ساتھ ان کا حوالہ دیا جاتا ہے۔

سید مسعود حسین کی پیدائش 29 جولائی 1852 ( 15 محرم الحرام 1311 ہجری ) کو اتر پردیش کے اناو میں ہوئی تھی۔ ان کے والد کا اس وقت ہی انتقال ہو گیا تھا جب وہ محض 8 سال کے تھے۔ اس طرح ان کی پرورش کی پوری ذمہ داری ان کی والدہ ہاشمی بیگم پر آگئی تھی۔ ان کی ابتدائی تعلیم اناو کے اسکول میں ہوئی تھی لیکن آٹھواں کلاس پاس کرنے کے بعد انہوں نے لکھنﺅ کا رخ کیا۔ جہاں ان کا داخلہ حسین آباد ہائی اسکول میں ہوا۔ اسی اسکول میں جوش ملیح آبادی بھی پڑھتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی کئی اور ایسی شخصیتیں تھیں جنہوں نے بعد میں اردو ادب میں بڑا نام پیدا کیا۔

لکھنﺅ کے طالب علمی کے اس دور میں ہی ادیب کے تعلقات اس وقت کے ادباءو شعراءسے ہوئے اور ان کے ادبی ذوق کو جلا حاصل ہوئی۔ دوسری جانب ان کو اس مٹتے ہوئے شہر اور اس کی ختم ہوتی ہوئی ادبی اور تہذیبی روایات نے مسحور کرنا شروع کر دیا۔ ان کی ملاقات بہت سے ایسے لوگوں سے ہوئی جنہوں نے اپنی آنکھ سے واجد علی شاہ کا زمانہ اور 1857 کا پرآشوب دور دیکھا تھا۔ ان سب کے پاس دلچسپ اور عبرت ناک حکایتوں کا ایک خزانہ تھا۔ جس سے نہ صرف ادیب متاثر ہوئے بلکہ انہوں نے ان کو جمع کرنا شروع کر دیا۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں واجد علی شاہ اور لکھنوی ادب پر ایک سند کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔ اتنا ہی نہیں ادیب نے کافی تلاش و جستجو کے بعد واجد علی شاہ کے تحریر کردہ 50 سے زیادہ رسائل اور کتابوں کو بھی جمع کیا اور ان کی تدوین کی۔

مسعود حسین کی پہلی کتاب ’ امتحان وفا ‘ سنہ 1920 میں شائع ہوئی۔ جو لارڈ ٹینیشن کے ایک منظوم انگریزی قصے ’ اینک آرڈن ‘ کا اردو نثر میں ترجمہ ہے۔ انہوں نے اسی زمانے میں گولڈ اسمیتھ کی طویل نظم ’ قریہ¿ ویراں ‘ کا انگریزی سے اردو میں منظوم ترجمہ کیا تھا۔

سنہ 1922 میں وہ لکھنﺅ یونیورسٹی میں اردو کے پہلے لکچرر بحال ہوئے اور چند سال کے اندر فارسی کے ریڈر اور اردو وفا رسی شعبہ کے صدر مقرر ہوئے۔ انہیں کامیاب ارد و فارسی کتابوں اور مخطوطوں کو جمع کرنے کا ایسا شوق پیدا ہوا کہ وہ پرانے لکھنﺅ کے گلی کوچوں میں گھوم گھوم کر کتابوں کے ذخیرے تک پہنچتے اور شہر کے کتب فروشوں کے یہاں سے نادر کتابیں لے آتے۔ ان کا ذاتی کتب خانہ اتنا اہم تھا کہ شہر اور بیرون شہر کے لوگ وہاں تحقیق کے لئے آتے تھے۔ ان کے مخطوطوں کا ذخیرہ اتنا وقیع تھا کہ اس کا شمار ملک کے اہم کتب خانوںمیں کیا جاتا تھا۔

مسعود حسین رضوی نے 50 سے بھی زائد کتابوں کی تصنیف و تالیف کی لیکن ان کا تحقیقی کام ” اردو ڈرامہ اور اسٹیج “ ابتدائی دور کی مفصل تاریخ“ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے اس کے ابواب و مباحث کی تقسیم اس طرح رکھی ہے کہ ان میں وہ سارا مواد خو ش ترتیبی کے ساتھ کھپ گیا ہے جو انہوں نے کئی دہائیوں کی تلاش و تگ و دو کے بعد جمع کیا تھا اور کئی برسوں تک ان کی ترتیب میں پریشان رہے تھے۔ ان کی اس کتاب کو اردو ڈرامے پر ایک سند کی حےثیت تسلیم کیا جاتا ہے۔

مسعود حسین رضوی ادیب نے ساری زندگی تحقیق کا کام کیا لیکن شاید انہیں زندگی میں وہ مقام حاصل نہ ہو سکا جس کے وہ مستحق تھے۔ اس کی وجہ غالباً یہ رہی کہ وہ تشہیر سے کافی دور تھے۔ ان کے اندر کسر نفسی اور منکسر المزاجی تھی وہ اپنی موت کے وقت آتش لکھنوی کا یہ شعر اکثر پڑھا کرتے تھے۔

کسی نے مول نہ پوچھا دل شکستہ کا

کوئی خرید کے ٹوٹا پیالا کیا کرتا

لیکن ان کی موت کے بعد ان کی تحقیقی کتابوں کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا اور متعدد رسائل نے ان پر یاد گاری نمبر شائع کئے۔

لکھنے پڑھنے سے انہیں عشق تھا، اسی لئے 29 نومبر سنہ 1975 کو اپنے کتابوں کے کمرے میں ہی ان کا انتقال ہوا۔ اسی لئے ان کے صاحبزادے نامور محقق، ناقد اور افسانہ نگار پروفیسر نیر مسعود لکھتے ہیں

” ادبستان کے ایک کمرے میں کسی زمانے میں ان کی زیر مطالعہ کتابیں رہتی تھیں اور وہ کتابوں والا کمرہ کہلاتا تھا۔ آخری دنوں میں انہوں نے اپنا بستر اسی کمرے میں لگوا لیا تھا ان کے مرض الموت میں ہمہ وقت یہ احساس ہوتا تھا کہ ایک ادیب رخصت ہو رہا ہے اور اپنے سینے میں معلوم نہیں کیا کیا لئے جا رہا ہے اور جب 29 نومبر سنہ 1975 کو اسی کتابوں والے کمرے میں ان کی آنکھ بند ہوئی تو یہ احساس ہوا کہ ان کی سب سے زیادہ خوشیاں اور سب سے زیادہ غم ادب سے وابستہ تھے۔ “

XS
SM
MD
LG