رسائی کے لنکس

بنگلہ دیش: پولیس پر حکومت مخالفین پر جھوٹے مقدمے بنانے کا الزام


بنگلہ دیش میں پولیس مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ایکشن لے رہی ہے۔ اگست 2018
بنگلہ دیش میں پولیس مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ایکشن لے رہی ہے۔ اگست 2018

بنگلہ دیش میں پولیس نے حالیہ برسوں میں ہزاروں افراد کے خلاف تشدد سے متعلق کیسز رجسٹر کیے ہیں لیکن ملک کی حزب اختلاف اور انسانی حقوق کے علمبردار کہتے ہیں ان میں بیشتر کیسز جعلی ہیں جن میں مبینہ طور پر بمباری اور فسادات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

حزب اختلاف کی جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ ان کیسز میں جن لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ہے وہ زیادہ تر ان جماعتوں کے لیڈرز، ورکرز اور حامی افراد ہیں۔ اور حکومت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے اپنے سیاسی حریفوں پر کریک ڈاون کیا ہے۔

ہانگ کانگ میں مقیم انسانی حقوق کے ایک بنگلہ دیشی کارکن مشرف اشرف الزمان کا کہنا ہے کہ پولیس کے دائر کردہ بیشتر کیسز جعلی ہیں۔ ’ بنگلہ دیش میں پولیس نے ایسے واقعات پر مقدمات درج کیے ہیں جو حقیقی زندگی میں کبھی ہوئے ہی نہیں تھے۔ ملک میں پر تشدد واقعات کے جھوٹے دعوے کیے گئے ہیں اور ان واقعات میں ملوث ہونے کے مقدمات کئی ایسے افراد کے خلاف درج کیے ہیں جو یا تو مر چکے ہیں یا ضعیف ہیں یا پھر بنگلہ دیش چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ ‘

بنگلہ دیش میں پولیس کسی بھی شخص کے خلاف کسی ثبوت کے بغیر مقدمہ درج کر سکتی ہے۔ جبکہ مجرم ثابت کرنے کے لیے عدالت میں ثبوت پیش کرنے ہوتے ہیں۔

بنگلہ دیش کی حزب اختلاف کی سیاسی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے سینیر جوائنٹ سیکرٹری روہول کبیر رضوی کہتے ہیں ’’گزشتہ نو یا دس برسوں میں پولیس نے ہماری پارٹی کے جن لیڈرز، ورکرز اور حامی افراد کے خلاف مقدمات درج کیے ہیں ان کی تعداد تقریباً 25 لاکھ ہے۔ پولیس نے یہ جعلی مقدمات محض اس لیے بنائے ہیں تاکہ ہمارے قائدین اور سیاسی کارکنوں کو سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھا جا سکے۔ ‘

الزامات کی لمبی فہرست

بنگلہ دیش میں پولیس پر طویل عرصے سے یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ اغوا، جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل جیسی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔

ایک طرف جہاں حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے وہیں دوسری جانب انسانی حقوق کے گروپس کہتے ہیں کہ ان کے پاس حکومت اور پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی جانب سے زیادتیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ موجود ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں پولیس کی جانب سے حکومت مخالف جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں پر تشدد سے متعلق کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

جمہوریت کے لیے کام کرنے والے ایک کارکن پناکا بھٹاچاریا کا کہنا ہے کہ 2009 میں شیخ حسینہ کے وزیر اعظم بننے کے بعد قریباً دو برسوں میں ان کی حکومت نے مخالف جماعتوں اور گروپس کے خلاف پکڑ دھکڑ کی اور اس مقصد کے لیے حکومتی ایجنسیوں کو استعمال کیا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بھٹاچاریا نے کہا ’’حزب اختلاف کی جماعتوں نے چند سال پہلے جب سڑکوں پر مظاہرے کیے تھے تو پولیس نے ان کے خلاف لاٹھیوں اور اسلحے کا استعمال کیا۔ آج کل حکومت مخالف کارکن سڑکوں پر نکلنے سے خوفزدہ ہیں اور وہ باہر نہیں نکل رہے۔ لیکن پھر بھی پولیس حکومت مخالف افراد کے خلاف مقدمات درج کر رہی ہے۔ ‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’پولیس نے اب ایسے افراد کے خلاف مقدمات درج کیے ہیں جو مر چکے ہیں یا پھر اتنے بیمار اور ضعیف ہیں کہ چل پھر نہیں سکتے۔ ایسے لوگوں پر بھی مقدمے درج کیے گئے جو ان پرتشدد واقعات کے دوران پہلے سے ہی جیل میں تھے اور جن کے اوپر مقدمے بنائے گئے۔ اس سے مقدموں کے جعلی ہونے کا پتا چلتا ہے۔‘

مردہ شخص پر بم دھماکہ کرنے کا الزام؟

ایک واقعے میں پولیس نے بی این پی کے ایک رہنما کے خلاف تشدد سے متعلق کیس رجسٹر کیا اور اسے ایک ایسے واقعے میں ملوث کر دیا جو اس شخص کی زندگی میں ہوا ہی نہیں تھا۔

بی این پی کے رہنما نور الاسلام کے ایک رشتہ دار نے پولیس کے ڈر سے اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر بتایا ہے کہ نورالاسلام کا اگست میں انتقال ہو گیا تھا لیکن پولیس نے ان کے خلاف ستمبر میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں ملوث ہونے کے الزام میں مقدمہ درج کیا۔ انہوں نے محض اس لیے ایک جعلی کیس درج کیا کیونکہ اسلام بی این پی کے لیڈر تھے ‘

حکومت کا اصرار ہے کہ پولیس نے یہ مقدمات سیاسی بنیادوں پر قائم نہیں کیے۔

وزیر اعظم حسینہ واجد کے میڈیا ایڈوائزر اقبال سبحان کا کہنا ہے ’ تمام ممالک میں حزب مخالف ہمیشہ حکومت کے خلاف اسی قسم کے الزامات لگاتی ہے۔ ان بیانات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ پولیس نے اپوزیشن کے لوگوں کو سیاسی بنیادوں پر حراست میں نہیں لیا۔ انہیں اس لیے پکڑا گیا کیونکہ انہوں نے قانون کی خلاف ورزی کی تھی اور افراتفری پھیلائی تھی۔ ‘

تاہم انسانی حقوق کے کارکن حکومت کے دعووں کو مسترد کرتے ہیں۔

علی ریاض بنگلہ دیشی نژاد امریکی ہیں اور سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس نے بنگلہ دیش میں ’ہزاروں معصوم افراد‘ کو مقدمات میں پھنسایا جن میں معذور افراد اور بچے بھی شامل ہیں، ان پر ’بے معنی اور فرضی ‘ مقدمات درج کیے گئے۔

امریکی ریاست الینوئے کی سٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر علی ریاض کا کہنا ہے کہ جیلوں میں گنجائش سے زیادہ افراد بھر دیے گئے ہیں۔ جب سیاسی پس منظر نہ رکھنے والے افراد بہیمانہ حالات سے گزر رہے ہوں تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ وہاں حکومت مخالف افراد پر کیا گزر رہی ہو گی جو گزشتہ کئی برسوں سے جیلوں میں ہیں۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ حکومت کس قدر آمرانہ شکل اختیار کر چکی ہے۔

انتخابات میں دھاندلی

ملک کےحالیہ عام انتخابات میں حصہ لینے والے حکومت مخالف جماعتوں کے کئی امیدواروں کا کہنا ہے کہ پولیس نے شیخ حسینہ واجد کی کامیابی یقینی بنانے کے لیے اعلانیہ طور پر عوامی لیگ کی حمایت کی۔

مشرف حسین بنگلہ دیش کے انتخابات میں حکومت مخالف امیدوار کے طور پر حصہ لے چکے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’ ہماری جماعت کے کئی افراد کو پولیس نے اٹھا لیا اور پھر جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل جیسی سرگرمیوں مقدمات قائم کر دیے گئے۔ الیکشن سے ایک ہفتہ پہلے حکومت کے مسلح بدمعاشوں نے میرے گھر کا گھیراو کیا ۔ پولیس نے کھلے لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ وہ میری حفاظت نہیں کر سکتے۔ ‘

تاہم شیخ حسینہ واجد کے میڈیا ایڈوائیزر کا کہنا ہے کہ پولیس پر یہ الزام کہ اس نے حکومت کی مدد کی تاکہ الیکشن میں دھاندلی کے لیے حکومت کی مدد کی جا سکے، درست نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ محض بیانات ہیں۔ لیکن ان کا، بقول ان کے، حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ پوزیشن آج تک یہ الزامات ثابت نہیں کر سکی اور نہ ہی الیکشن میں دھاندلی کے شواہد پیش کر سکی۔ عوامی سطح پر اس سلسلے میں کئی سماعتیں ہو چکی ہیں۔ کہیں بھی یہ الزام ثابت نہیں ہوئے۔

XS
SM
MD
LG