رسائی کے لنکس

شیخ مجیب الرحمٰن کے قاتلوں کی پھانسی کے بعد تدفین


شیخ مجیب الرحمٰن کے پانچوں قاتلوں کی جمعرات کے دِن اُن کے اپنے اپنے آبائی گاوؤں میں تدفین کر دی گئی۔ ان افراد کو بدھ کو نصف شب کے بعد پھانسی دے دی گئی تھی۔

ڈھاکہ کے ڈپٹی کمشنر ظل الرحمٰن نے بتایا کہ ڈھاکہ کی سینٹرل جیل میں پانچوں مجرمین کو پھانسی دینے کا عمل بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب 12 بج کر پانچ منٹ پر شروع ہوا تھا۔

سلطان شہریار رشید اور فاروق الرحمٰن کو سب سے پہلے پھانسی دی گئی۔ اُن کے بعد بارہ بج کر 35منٹ پر فضل الہدیٰ اور اے کے محی الدین کی باری آئی۔ سب سے آخر یعنی ایک بج کر پانچ منٹ پر محی الدین احمد کو پھانسی دی گئی۔ اِس کے بعد پانچوں لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا گیا اور صبح ہونے سے ذرا پہلے ایمبولنس گاڑیاں لاشوں کو لے کر اُن کے آبائی گاؤں کی جانب روانہ ہو گئیں جہاں جمعرات کی دوپہر تک پانچوں کی آخری رسومات ادا کر دی گئیں۔

جیسے ہی مجیب کے قاتلوں کو پھانسی دینے کی خبر ڈھاکے میں پھیلی عوامی لیگ کے اراکین اور عام لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔

مجیب الرحمٰن کی صاحب زادی اور ملک کی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ نے اِس خبر کا خیر مقدم کرتے ہوئے نمازِ شکرانہ ادا کی اور قرآن کی تلاوت میں مصروف ہو گئیں۔

عوامی لیگ کے ایک سینئر لیڈر عبد الجلیل نے کہا کہ دیر سے ہی صحیح، مجرموں کو اپنے کیے کی سزا مل گئی اور یہ بات ثابت ہو گئی کہ بنگلہ دیش میں کوئی بھی شخص جرم کر کے قانون کے ہاتھوں سے بچ نہیں سکتا۔

15اگست 1975ء کی رات ہونے والی فوجی بغاوت میں اُس وقت بنگلہ دیش کے صدر شیخ مجیب الرحمٰن، اُن کی اہلیہ، اُن کے تین بیٹوں اور بہوؤں اور دیگر 20 رشتے داروں کو قتل کر دیا گیا تھا۔

مجیب کی بیٹیاں شیخ حسینہ اور شیخ ریحانہ اُس وقت ملک سے باہر تھیں اِس لیے زندہ بچ گئی تھیں۔ مجیب کے قتل کے تقریباً 35سال بعد اُن کے پانچ قاتلوں کو موت کی سزا دی گئی ہے۔ یہ سب کے سب سابق فوجی اہل کار تھے اور اُنھوں نے اپنا جرم قبول کر لیا تھا۔ اُن کے علاوہ سات اور لوگوں کے خلاف بھی موت کی سزا سنائی جاچکی ہے، اُن میں سے ایک کا انتقال ہو گیا ہے، جب کہ چھ غیر ممالک میں چُھپے ہوئے ہیں۔

XS
SM
MD
LG