پاکستان میں ان دنوں نجی بینکوں کے اعلیٰ افسران شديد پریشانی کا شکار ہیں اور اس کی وجہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں بینک کے سابق ملازمین کا کیس ہے جس میں انہوں نے بینکوں کی طرف سے انتہائی کم پنشن دینے پر کیس دائر کر رکھا ہے۔
چیف سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ بینک نے اپنے ریٹائرڈ ملازمین کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے۔ بینکوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے عدم پیشی پر الائیڈ بینک کے صدر پر دو لاکھ روپے جرمانہ عائد کرتے ہوئے انہیں کل طلب کرلیا۔
کیس کی سماعت کے دوران 243 روپے 72پیسے پنشن دیے جانے کا بھی انكشاف ہوا۔ پاکستان کا ایک معروف بینک حبیب بینک لمیٹڈ اپنے ایک سابق ملازم کی اہلیہ خوشحال بی بی کو ماہانہ 243روپے 72پیسے پنشن ادا کر رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 243روپے 72 پیسے لینے والی خوشخال بی بی خوشحال کیسے رہے گی۔ بینک والے بتائیں کیا یہ ان کی اخلاقیات ہیں۔
ایک اور خاتون منظور فاطمہ بی بی کے بارے میں بتایا گیا کہ ایچ بی ایل 360 روپے ماہانہ پنشن دیتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے بینک کے اعلیٰ افسران کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ جس کی اپنی تنخواہ 30لاکھ روپے ماہانہ ہو، اسے ایسی چیزیں دیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے بینک ملازمین پنشنرز کیس کی سماعت کی۔ صدر یو بی ایل سیما کامل اور سی ایف او عامر عدالت میں پیش ہوئے۔
سپریم کورٹ نے یو بی ایل کی نجکاری پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ لگتا نہیں کہ نجکاری قانون کے مطابق ہوئی۔ قومی اثاثے کو ڈبو دیا گیا ہے۔ کیوں نہ بینک کی نجکاری کا بھی جائزہ لیں۔ معاملے پر مزید سوچ بچار کروں گا۔ سماعت میں یہ بات سامنے آئی کہ بعض ریٹائرڈ ملازمین کو صرف 243 روپے 72 پیسے پنشن دی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پنشنرز اب کمانے کے قابل بھی نہیں رہے، بزرگوں اور بیواؤں کو کیسے کہوں کہ آئین و قانون آپ کے کے لئے کچھ نہیں کر سکتا۔
چیف جسٹس نے یو بی ایل کی صدر سیما کامل سے استفسار کیا کہ آپ کی کتنی تنخواہ ہے؟ تو صدر نے جواب دیا کہ آپ کو معلوم ہو گا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا میں آپ کے بینک کا ملازم ہوں جو مجھے آپ کی تنخواہ معلوم ہو گی؟ سیما کامل نے بتایا کہ میری تنخواہ 30 لاکھ ہوگی۔ یو بی ایل کے سی ایف او نے بتایا کہ اس کی تنخواہ 20 لاکھ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جس کی اپنی تنخواہ 30لاکھ روپے ماہانہ ہو اسے ایسی چیزیں دیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ بینک کی صدر کوکہیں جہاں 30لاکھ تنخواہ لے رہے ہیں وہ یہ پیسے بھی رکھ لے۔ صدر یوبی ایل 1321 روپے پنشن بھی ختم کردیں، بینک کے لئے ریٹائرڈ ملازمین فضول لوگ ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ خود 30 لاکھ اور 20 لاکھ روپے تنخواہ لے رہے ہیں لیکن ملازمین کو 1321 روپے پنشن دے رہے ہیں۔ یہ کارپوریٹ سیکٹر کا ڈھانچہ ہے۔ یو بی ایل کی صدر نے اپنی تنخواہ اور مراعات درست نہیں بتائیں، کیوں نہ آئی بی یا ایف آئی اے سے ان کا پیکیج معلوم کروائیں۔ عدالت میں جھوٹ ثابت ہوا تو نتائج بھی بھگتنا ہوں گے۔
عدالتی معمول کے برخلاف اس کیس کی سماعت تقریباً تمام دن جاری رہی اور شام پانچ بجے تک بینک کے اعلیٰ افسران اور بوڑھے پینشنرز کیس کی سماعت کے دوران موجود رہے۔ ایک موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیس آج رات آٹھ بجے تک سنا جائے گا۔ تاہم شام پانچ بجے اس کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔