واشنگٹن —
شیخ حسینہ نے اتوار کے روز دوسری میعاد کے لیے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم کے طور پر عہدے کا حلف لیا، جس سے قبل ملک کے ہنگامہ خیز انتخابات میں کم از کم 18 افراد ہلاک ہوئے۔
مز حسینہ اور اُن کی حکمراں عوامی لیگ کی فتح عیاں تھی، کیونکہ حزبِ مخالف کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے، جِس کی قیادت سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاٴ کرتی ہیں، انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔
عوامی لیگ کے امیدوار ملک کے نصف حلقوں میں بلامقابلہ انتخاب جیتے۔
یہ دونوں خواتین گذشتہ دو عشروں سے بنگلہ دیش کی سیاست پر چھائی رہی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نئی حکومت کا دور مختصر ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ وزیر اعظم کو بڑھتے ہوئے سیاسی بحران کا سامنا ہے اور بین الاقوامی برادری اور مخالفین کی طرف سے نئے انتخابات کرانے کے لیے آوازیں زور پکڑ رہی ہیں۔
شیخ حسینہ 1996ء سے 2001ء تک بھی وزیر اعظم رہ چکی ہیں۔
ووٹ ڈالنے والوں کی شرح انتہائی کم رہی ہے، جب کہ سرگرم کارکنوں کی طرف سے حملوں کے باعث 150سے زائد پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹنگ کے عمل کو روکنا پڑا۔
اِس ماہ ہونے والے انتخابات سے قبل کافی دِنوں تک ملک بھر میں لاکھوں فوجی تعینات کیے گئے، تاہم اُن کی موجودگی تشدد کی کارروائیاں روکنے میں زیادہ تر ناکام رہی۔
الیکشن کے اوقات کے دوران زیادہ تر اموات پولیس کی طرف سے احتجاج کرنے والوں پر فائر کھولنے کے باعث ہوئی۔ تاہم، مرنے والوں میں پولنگ اسٹیشنوں کے کم از کم دو کارکن تھے۔
بین الاقوامی مبصرین نے انتخابات کے مشاہدے کے لیے ملک میں آنے سے انکار کردیا تھا۔
اپوزیشن نے مطالبہ کر رکھا تھا کہ وزیر اعظم حسینہ اقتدار چھوڑ دیں اور انتخابات کی نگرانی کے لیے ایک عبوری حکومت قائم کی جائے۔ اُنھوں نے اِس بات سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا کرنے سے سیاسی ہنگامہ آرائی جنم لیتی ہے۔
ملک بھر میں ہونے والی حالیہ ہنگامہ آرائی کے دوران 150سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں زیادہ تر کی موت گذشتہ دو ماہ کے دوران واقع ہوئی۔
مز حسینہ اور اُن کی حکمراں عوامی لیگ کی فتح عیاں تھی، کیونکہ حزبِ مخالف کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے، جِس کی قیادت سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاٴ کرتی ہیں، انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔
عوامی لیگ کے امیدوار ملک کے نصف حلقوں میں بلامقابلہ انتخاب جیتے۔
یہ دونوں خواتین گذشتہ دو عشروں سے بنگلہ دیش کی سیاست پر چھائی رہی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نئی حکومت کا دور مختصر ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ وزیر اعظم کو بڑھتے ہوئے سیاسی بحران کا سامنا ہے اور بین الاقوامی برادری اور مخالفین کی طرف سے نئے انتخابات کرانے کے لیے آوازیں زور پکڑ رہی ہیں۔
شیخ حسینہ 1996ء سے 2001ء تک بھی وزیر اعظم رہ چکی ہیں۔
ووٹ ڈالنے والوں کی شرح انتہائی کم رہی ہے، جب کہ سرگرم کارکنوں کی طرف سے حملوں کے باعث 150سے زائد پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹنگ کے عمل کو روکنا پڑا۔
اِس ماہ ہونے والے انتخابات سے قبل کافی دِنوں تک ملک بھر میں لاکھوں فوجی تعینات کیے گئے، تاہم اُن کی موجودگی تشدد کی کارروائیاں روکنے میں زیادہ تر ناکام رہی۔
الیکشن کے اوقات کے دوران زیادہ تر اموات پولیس کی طرف سے احتجاج کرنے والوں پر فائر کھولنے کے باعث ہوئی۔ تاہم، مرنے والوں میں پولنگ اسٹیشنوں کے کم از کم دو کارکن تھے۔
بین الاقوامی مبصرین نے انتخابات کے مشاہدے کے لیے ملک میں آنے سے انکار کردیا تھا۔
اپوزیشن نے مطالبہ کر رکھا تھا کہ وزیر اعظم حسینہ اقتدار چھوڑ دیں اور انتخابات کی نگرانی کے لیے ایک عبوری حکومت قائم کی جائے۔ اُنھوں نے اِس بات سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا کرنے سے سیاسی ہنگامہ آرائی جنم لیتی ہے۔
ملک بھر میں ہونے والی حالیہ ہنگامہ آرائی کے دوران 150سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں زیادہ تر کی موت گذشتہ دو ماہ کے دوران واقع ہوئی۔