رسائی کے لنکس

دیوار برلن کے ایک حصے کی محکمہٴخارجہ کے میوزیم میں تنصیب


کنکریٹ کا بنا ہوا دیوار برلن کا یہ مستطیل ٹکڑا اٹھائے ملازمین ایک ٹرک کے ذریعے محکمہ خارجہ لائے، جسے نئے تعمیر ہونے والے میوزیم، ’یو ایس ڈپلومیسی سنٹر‘ میں نصب کیا جا رہا ہے، تاکہ یہ نمائش میں دلچسپی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ امریکی سفارتکاری کی تاریخ کو بھی دنیا کے سامنے ظاہر کرے

سرد جنگ کے عروج کے دوران مشرقی و مغربی جرمنی کو الگ کرنے والی کرنے والی دیوار برلن کا ایک ٹکرا جمعرات کو یہاں واشنگٹن میں منظر عام پر لایا گیا۔

کنکریٹ کا بنا ہوا دیوار برلن کا یہ مستطیل ٹکرا اٹھائے ملازمین ایک ہموار ٹرک کے ذریعے اسے محکمہ خارجہ لائے، جسے نئے تعمیر ہونے والے میوزیم، ’یو ایس ڈپلومیسی سنٹر‘ میں نصب کیا جا رہا ہے، تاکہ یہ نمائش میں دلچسپی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ امریکی سفارتکاری کی تاریخ کو بھی دنیا کے سامنے ظاہر کرے۔۔

دیوار برلن جنگ عظیم دوم کے بعد سرد جنگ کے دوران مغرب اور سویت یونین کے درمیان تقسیم کی علامت تھا۔ بد شگونی کی علامت 43 کلو میٹر طویل دیوار برلن 1961 سے 1989 تک قائم رہی، جب اسے گرایا گیا اور دونوں جرمن ملک متحد ہوئے۔

اس دیوار کو مشرقی جرمنی سے مغربی جرمنی فرار ہونے کے لئے عبور کرنے کی کوشش میں کم از کم 171 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

بالآخر، احتجاجی مظاہرین نے ہتھوڑوں اور دیگر اوزاروں کی مدد سے اس کے بشتر حصے کو گرا دیا۔ ان کا یہ منظر جدوجہد آزادی کی تکمیل کی علامت بن کر دنیا کے سامنے آیا۔

واشنگٹن میں لائے جانے والے دیوار برلن کا یہ حصہ غیر معمولی نہیں کیونکہ اس میں ان لوگوں کے آٹوگراف ہیں جنھوں نے اس تنازعے کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان میں سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش، سابق روسی قائد میخائل گورباچوف، سابق جرمن چانسلر ہلمت کوہل، موجودہ جرمن چانسلر آنگلہ مرخیل، سابق پولیش صدر اور اتحادی قائدین لیچ ویلیسا اور سابق امریکی وزیر خارجہ، جیمس بیکر شامل ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ واشنگٹن میں دیوار برلن کا یہ حصہ یورپ کے ساتھ ہماری مشترکہ تاریخ کی مستقل یادگار بنے گا۔

XS
SM
MD
LG