رسائی کے لنکس

امریکہ اور چین کے صدور کی ایک برس بعد ملاقات؛ کیا موضوعات زیرِ بحث آ سکتے ہیں؟


دونوں رہنماؤں کے درمیان گزشتہ برس انڈونیشیا میں ہونے والے جی 20 اجلاس میں ملاقات ہوئی تھی۔ فائل فوٹو۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان گزشتہ برس انڈونیشیا میں ہونے والے جی 20 اجلاس میں ملاقات ہوئی تھی۔ فائل فوٹو۔

وائٹ ہاؤس کے مشیر برائے قومی سلامتی جیک سلیوان کا کہنا ہے کہ صدر جو بائیڈن چین کے ساتھ فوجی سطح پر تعلقات کی بحالی چاہتے ہیں۔ اتوار کو یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب رواں ہفتے صدر بائیڈن اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے ملاقات کرنے والے ہیں۔

امریکہ اور چین کے صدور کے درمیان تقریباً ایک برس بعد ہونے والی یہ ملاقات بدھ کو سان فرانسسکو میں منعقد ہونے والی’ ایشیا پیسیفک کو آپریشن‘ سمٹ کی سائیڈ لائنز پر ہو گی۔ جنوری 2021 میں منصب سنبھالنے کے بعد صدر بائیڈن کی اپنے چینی ہم منصب سے یہ دوسری دو بدو ملاقات ہے۔

دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں تجارت، تائیوان اور دونوں ممالک کے درمیان رابطوں کی بحالی سمیت کئی اہم امور زیرِ بحث آنے کی توقع کی جارہی ہے۔

اتوار کو امریکی مشیر برائے قومی سلامتی جیک سلیوان نے اپنے بیان میں کہا کہ صدر بائیڈن چین کے ساتھ ’ملٹری ٹو ملٹری‘ تعلقات کی بحالی کے لیے پُر عزم ہیں کیوں کہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ امریکہ کے قومی مفاد میں ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے 'سی بی ایس' کے پروگرام ’فیس دی نیشن‘ میں گفتگو کرتے ہوئے مشیر قومی سلامتی کا کہنا تھا کہ ہمیں چین کے ساتھ کمیونی کیشن لائنز کی ضرورت ہے تاکہ کوئی غلطی یا غلط فہمی نہ ہو۔

سلیوان کا کہنا تھا کہ عسکری تعلقات سینئر لیڈرشپ سے لے کر آپریشنل نوعیت تک ہر سطح پر بحال ہوں گے اور ان میں ہند بحر الکاہل میں فضائی اور بحری سطح پر ہونے والی سرگرمیوں سے متعلق کمیونی کیشن بھی شامل ہو گی۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ نے ایک سینئر امریکی عہدے دار کے حوالے سے بتایا ہے کہ جو بائیڈن اور شی جن پنگ کے درمیان ہونے والی ملاقات میں اسرائیل حماس جنگ، روس کے یوکرین پر حملے، شمالی کوریا کے ساتھ روس کے تعلقات، تائیوان، ہند بحر الکاہل، انسانی حقوق، فینٹنائل کی پیداوار، آرٹیفیشل انٹیلی جینس اور ’شفاف‘ تجارتی تعلقات جیسے موضوعات پر گفتگو ہونے کی توقع ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اس وقت سرد مہری کا شکار ہوئے تھے جب رواں برس فروری میں صدر بائیڈن نے امریکہ کی فضائی حدود میں آنے والے چین کے ایک جاسوس غبارے کو مار گرانے کے احکامات دیے تھے۔

تاہم اس کے بعد بھی بائیڈن حکومت کے کئی سینئر عہدے داران بیجنگ کا دورہ کر چکے ہیں اور اپنے دو طرفہ رابطے بحال رکھنے کے لیے اپنے ہم منصب حکام سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔

’راستہ ہموار نہیں‘

گزشتہ ماہ چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی نے واشنگٹن کا تین روزہ دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے اپنے امریکی ہم منصب اینٹنی بلنکن اور مشیر برائے قومی سلامتی جیک سلیوان سے ملاقاتیں کی تھیں۔

ان ملاقاتوں کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے چینی وزارتِ خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وانگ یی نے امریکہ کی اسٹریٹجک کمیونٹی سے ملاقاتوں میں یہ واضح کیا تھا کہ سان فرانسسکو میں ہونے والی دو طرفہ ملاقات کا ایجنڈا متعین کرنے کا راستہ ’ہموار‘ نہیں ہو گا۔

تاہم اس بیان میں کہا گیا تھا کہ اگرچہ کئی امور طے ہونا باقی ہیں لیکن دونوں جانب اس بات پر متفق ہیں کہ امریکہ اور چین میں گفت و شنید جاری رہنا دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق امریکہ اور چین کے صدر کی ملاقات کے ایجنڈے میں مشکل ایشوز کی کمی نہیں ہوگی۔

گزشتہ ایک برس کے دوران دونوں ممالک کے تعلقات میں کئی پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں۔ اس کے اسباب میں امریکہ کی جانب سے جدید ٹیکنالوجی کی برآمدات کو کنٹرول کے لیے متعارف کیے گئے قواعد، چینی غباروں کو نشانہ بنانے کے صدر بائیڈن کے احکامات اور رواں برس کے آغاز میں تائیوان کے صدر کے امریکہ میں مختصر قیام سمیت کئی دیگر ایشوز شامل ہیں۔ چین، تائیوان کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔

اسرائیل حماس جنگ اور دیگر ایشوز

'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق بائیڈن ممکنہ طور پر صدر شی پر زور دیں گے کہ وہ شمالی کوریا کی جانب سے میزائل تجربات میں اضافے کے بعد بڑھتی ہوئی تشوش کو دور کرنے کے لیے پیانگ یانگ پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ واضح رہے کہ شمالی کوریا یوکرین جنگ میں روس کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔

'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق متوقع طور پر صدر بائیڈن اپنے چینی ہم منصب پر ایران کو اسرائیل حماس جنگ میں اپنے پراکسی گروپس کو ملوث ہونے سے روکنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی بات بھی کرسکتے ہیں۔

بائیڈن حکومت کا خیال ہے کہ ایرانی تیل کا بڑا خریدار ہونے کی وجہ سے چین اس سلسلے میں اپنا اثر رسوخ استعمال کرسکتا ہے۔ ایران کو حماس کے بڑے حامیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

بائیڈن اور شی جن پنگ کے درمیان آخری بار تقریباً ایک برس قبل انڈونیشیا میں ہونے والے جی 20 اجلاس میں ملاقات ہوئی تھی۔ یہ ملاقات تین گھنٹے تک جاری رہی تھی۔ اس ملاقات میں صدر بائیڈن نے تائیوان کو ہراساں کرنے کے لیے بیجنگ کے اقدامات پر براہ راست اعتراض سے آگاہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ دونوں رہنماؤں کے درمیان روس یوکرین جنگ پر بھی گفتگو ہوئی تھی۔

صدر شی نے اس ملاقات زور دیا تھا کہ چین تائیوان کو اپنے بنیادی قومی مفادات میں شمار کرتا ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ دو طرفہ تعلقات میں یہ ریڈ لائن عبور کی جائے۔

بیجنگ تائیوان کے ساتھ امریکہ کے بڑھتے ہوئے رابطوں کو آزادی کے لیے حوصلہ افزائی تصور کرتا ہے۔ تاہم امریکی حکام بارہا واضح کرچکے ہیں کہ وہ تائیوان کی آزادی کے حامی نہیں ہیں۔ امریکہ اپنی ’ون چائنا پالیسی‘ کے تحت بیجنگ ہی کو چین کی حکومت قرار دیتا ہے اور تائیوان کے ساتھ اس کے سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔

چینی وزارتِ خارجہ نے بدھ کو دونوں رہنماؤں کی ملاقات سے متعلق اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس بار اسٹریٹجک سطح پر کمیونیکیشن کے گہرے جائزے اور عالمی امن سے متعلق امور کے ساتھ چین امریکہ تعلقات کی سمت متعین کرنے والے موضوعات پر گفتگو کی جائے گی۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اس ملاقات کے بعد اگر کوئی اعلان یا پیش رفت سامنے آئی بھی تو وہ غیر معمولی نہیں ہو گی۔

ایک عہدے دار کا کہنا تھا کہ صدر بائیڈن دو طرفہ تعلقات میں درپیش خدشات کو دور کرنے اور مزید کشیدگی کو روکنے کی کوشش کریں گے۔ ان کے بقول، بائیڈن اس ملاقات میں دو طرفہ روابط کو بڑھانے پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں گے۔

اس تحریر کے لیے خبر رساں اداروں ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ اور ’رائٹرز‘ سے معلومات لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG