رسائی کے لنکس

امریکہ کی تمام بالغ آبادی یکم مئی سے ویکسین لگوانے کی اہل ہوگی، صدر بائیڈن


امریکی صدر جو بائیڈن کا پہلا براہ راست خطاب
امریکی صدر جو بائیڈن کا پہلا براہ راست خطاب

امریکی صدر جو بائیڈن نےامریکہ کی پچاس ریاستوں کی حکومتوں کو ہدایت کی ہے کہ یکم مئی تک ملک کی تمام بالغ آبادی کرونا ویکسین حاصل کرنے کی اہل ہوگی۔ صدر بائیڈن اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد جمعرات کی رات پہلی مرتبہ امریکی قوم سے براہ راست خطاب کر رہے تھے۔

تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ اس کے یہ مطلب نہیں ہیں کہ سب کو فوری طور پر ویکسین مہیا ہو گی، بلکہ اس کے معنی ہیں کہ یکم مئی سے ہر شہری قطار میں شامل ہونے کا اہل ہوگا۔ اس سے قبل تمام امریکی ریاستوں میں شہری اپنی عمر یا پیشے کے اعتبار سے مختلف ترجیحی درجوں میں تقسیم تھے ۔

وائس آف امریکہ کے نامہ نگار سٹیو ہرمن کے مطابق بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار نے صدر کے خطاب سے پہلے رپورٹروں کو بتایا کہ توقع کی جا رہی ہے کہ مئی کے آخر تک، امریکہ میں اتنی تعداد میں ویکسین کی فراہمی ہوسکے گی کہ تمام بالغان کو میسر آ سکے گی۔

صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ ان کا ہدف ہے کہ اس سال چار جولائی کو امریکہ کے یومِ آزادی کے موقعے پر، محدود تعداد میں اجتماع کی اجازت دی جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ چار جولائی تک، خاصا امکان ہے کہ لوگ اپنے خاندانوں اور دوستوں کے ساتھ اپنے گھر کے باغیچے یا محلے میں مل جل کر امریکہ کا یوم آزادی مناسکیں گے۔

تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ لوگ بڑی تعداد میں اکٹھے ہو سکیں گے بلکہ اس کا مطلب ہے کہ ایک طویل اور صبر آزما سال کے بعد، لوگ چھوٹے گروپوں میں اکٹھا ہو سکیں، تا کہ نہ صرف بطور قوم امریکہ کی آزادی کا دن منایا جا سکے بلکہ "ہم اس وائرس سے نجات کا جشن بھی منانے کے قابل ہوں"۔

صدر بائیڈن کے امریکی عوام سے خطاب سے قبل، ان کی انتظامیہ نے اعلان کیا تھا کہ ویکسین دینے کی مہم میں مدد کے لیے مزید چار ہزار فوجیوں کو تعینات کیا جا رہا ہے، جس سے ویکسین کی ترسیل کے کام پر تعینات ہونے والے کل امریکی فوجیوں کی تعداد چھ ہزار ہو جائے گی۔

عہدیداروں کے مطابق، دانتوں کے ڈاکٹر، طبی معاون، ڈاکٹروں کے معاون، مویشیوں کے ڈاکٹر اور طبی اور صحت عامہ کے شعبے کے طالب علم بھی بطور ویکسینٹر کام کر سکیں گے یا ویکسین دینے کے کام میں حصہ لے سکیں گے۔

امریکہ میں گزشتہ سال مارچ سن دوہزار بیس کے بعد، کرونا وائرس کی وجہ سے معیشت کی رفتار سست ہو گئی تھی، جو امریکہ کے لیے 1918 میں پھیلنے والی سپینش فلو کی وبا کے بعد سب سے بڑا صحت کا بحران تھا۔

صدر بائیڈن نے اپنے پیش رو امریکی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے وائرس سے نمٹنے کے لئے اختیار کی گئی ابتدائی حکمت عملی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وائرس سے پھیلنے والی وبا کی سنگینی کا کئی مہینوں تک انکار کیا جاتا رہا۔ واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے بعد میں وبا کے خلاف تحقیق اور ویکسین کی پیداوار میں تیزی پیدا کی تھی، جس کی بدولت آج ویکسین میسر ہے۔

صدر نے اپنے خطاب میں امریکیوں سے اپیل کی کہ وہ کرونا وائرس پر قابو پانے میں اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ جب ان کی "باری آئے تو ویکسین ضرور لگوائیں"۔

صدر بائیڈن نے کہا کہ "اگر ہم اپنا کردار ادا کریں گے تو پھر پورے امریکہ میں ویکسین مہم مکمل ہو جائے گی، معیشت ترقی کرے گی، ہمارے بچے واپس سکول جاسکیں گے اور ہم ایک دفعہ پھر یہ ثابت کریں گے کہ یہ ملک کچھ بھی کر سکتا ہے"۔

اگرچہ امریکہ میں اب بھی ہزاروں سکولوں کے دروازے صرف اور صرف آن لائن تعلیم کے لیے کھلے ہیں۔ ہزاروں کارکن اب بھی بے روزگار ہیں، معمولات زندگی کے نارمل ہونے کی اشارے ملنے شروع ہو گئے ہیں۔ بعض امریکی ریاستوں کے گورنر صحت کے قومی محکمے کے عہدیداروں کی جانب سے خبردار کئے جانے کے باوجود وائرس کی وجہ سے عائد کی گئی پابندیوں میں نرمی کررہے ہیں ، محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ پابندیوں میں نرمی کرنا جلد بازی ہے، کیونکہ اس سےوبا میں شدت آ سکتی ہے۔

لیکن صدر بائیڈن نے اپنے خطاب میں متنبہ کیا ہے کہ اگر لوگ احتیاط نہیں کریں گے تو حالات تبدیل ہو سکتے ہیں، جس پر انتظامیہ کو دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کی طرف جانا پڑ سکتا ہے۔

صدر بائیڈن کے خطاب پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے امریکی ریاست ٹینیسی سے تعلق رکھنے والے ایک ری پبلکن سینیٹر بِل ہیگرٹی کا کہنا تھا کہ بائیڈن کا انتباہی پیغام موثر نہیں تھا، کیونکہ انہوں نے سابق صدر کی انتظامیہ کی ویکسین تیار کرنے کی کاوشوں کو نہیں سراہا۔ انہوں نے کہا کہ صدر بائیڈن کا پیغام اتحاد پیدا کرنے والا نہیں بلکہ مزید لاک ڈاؤن کے انتباہ سے پُر تھا، بقول ان کے "یہ وہ سمت نہیں ہے جس پر امریکہ کو جانے کی ضرورت ہے یا وہ جانا چاہتا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی کا کہنا تھا کہ صدر بائیڈن کی جمعرات کی شام کی تقریر کا مقصد، امریکی عوام کو یہ بتانا تھا کہ اس وقت جب امریکہ عالمی وبا پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہے ، تو ایسے میں اُن سے کیا توقع کی جا رہی ہے۔

صدر بائیڈن کے خطاب سے پہلے، کانگریس نے ایک اعشاریہ نو ٹریلین ڈالر کرونا ریلیف پیکج کی منظوری دی تھی، جسے امیریکن ریسکیو پلان کا نام دیا گیا ہے۔

خطاب سے قبل، صدربائیڈن نے اپنی نائب صدر کاملا ہیرس کی موجودگی میں اس بل پر دستخط کر کےاسے قانون کا درجہ دے دیا ہے۔

جمعرات کو وائٹ ہاوس کی ترجمان جین ساکی نے رپورٹروں کو بتایا تھا کہ، آئندہ ہفتے، بائیڈن اپنی نائب صدر کے ہمراہ مختلف امریکی ریاستوں کا دورہ کریں گے تا کہ امریکی عوام کو بتا سکیں کہ اس ریلیف پیکج میں وہ کون سی شقیں ہیں جن سے وہ آگے بڑھنے کے لیے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ساکی کا کہنا تھا کہ صدر بائیڈن امریکی عوام سے ملاقات کے لئے بہت پر جوش ہیں۔

صدر بائیڈن آئندہ ہفتے ریاست پینسلوینیا اور جارجیا کا دورہ کرنے والے ہیں۔

XS
SM
MD
LG