رسائی کے لنکس

صدر بائیڈن کی تقریب میں شرکت، ہوٹل کے باہر غزہ میں جنگ بندی کے لیے احتجاج


  • رپورٹرز ایسوسی ایشن کے سالانہ ڈنر میں صدر بائیڈن کی شرکت
  • صدر بائیڈن کی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید
  • ہوٹل کے باہر جنگ مخالف مظاہرین کا احتجاج

امریکہ کے صدر جو بائیڈن صدارتی مہم کے دوران جہاں ڈونلڈ ٹرمپ کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں تو وہیں خود انہیں بھی غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کی حمایت پر تنقید کا سامنا ہے۔

ہفتے کی شب واشنگٹن ہلٹن ہوٹل میں 'وائٹ ہاؤس رپورٹرز ایسوسی ایشن' کے سالانہ ڈنر سے خطاب کے دوران صدر بائیڈن نے اپنی ڈھلتی عمر پر تنقید کرنے والوں کو بھی جواب دیا۔ اس دوران ہوٹل کے باہر صحافیوں کا ایک گروپ غزہ میں ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تصاویر اُٹھائے احتجاج کرتا رہا۔

ہوٹل کے مرکزی دروازے کے باہر ہونے والے اس احتجاج کے پیشِِ نظر صدر بائیڈن ہوٹل کے عقبی دروازے سے داخل ہوئے جہاں مظاہرین کا ایک گروپ موجود تھا۔ جس نے اس دوران غزہ میں فوری جنگ بندی کے نعرے لگائے۔

امریکہ میں اس سالانہ ڈنر کا اہتمام سو سال سے کیا جا رہا ہے جس میں وائٹ ہاؤس کی کوریج کرنے والے صحافی، سیاست دانوں اور اہم شخصیات شرکت کرتی ہیں۔ تقریب کا یہ خاصہ ہے کہ اس میں امریکی صدر رپورٹرز اور تقریب میں شریک دیگر شرکا کے ساتھ ہلکا پھلکا ہنسی مذاق بھی کرتے ہیں۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید

صدر بائیڈن نے اپنی تقریر کے دوران سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر بھی طنز کیا۔

اپنی ڈھلتی عمر میں سابق صدر پر تنقید کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا کہ "ہاں عمر میرے لیے ایک مسئلہ ہے، میں ایک بڑی عمر کا شخص ہوں جس کا مقابلہ ایک چھ سالہ شخص سے ہے۔"

صدر بائیڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ کا نام لیے بغیر کہا کہ صرف عمر ہی ہمارے درمیان ایک مشترک چیز ہے اور نائب صدر کاملا ہیرس بھی میری اس بات سے اتفاق کرتی ہیں۔

واضح رہے کہ ری پبلکن رہنما صدر بائیڈن پر یہ تنقید کرتے رہتے ہیں کہ اُن کی عمر بہت زیادہ ہو چکی ہے، لہذٰا وہ حکومتی امور چلانے کے قابل نہیں ہیں۔ تاہم صدر بائیڈن اور اُن کے قریبی ساتھی اس تاثر کو رد کرتے رہتے ہیں۔

خیال رہے کہ صدر بائیڈن کی عمر 81 برس ہے جب کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ 77 برس کے ہیں۔

اپنی تقریر کے دوران بائیڈن نے صحافیوں کو کچھ مشورے بھی دیے۔

صدر کا کہنا تھا کہ میں آپ سے یہ توقع نہیں کرتا کہ آپ کسی کی سائیڈ لیں۔ میری آپ سے صرف یہ درخواست ہے کہ آپ حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور نمبرز گیم میں پڑنے کے بجائے یہ جائزہ لیں کہ وہ کون سے خطرات ہیں جو ہماری سیاست پر غلبہ پانا چاہتے ہیں۔

جنگ مخالف تنظیم 'کوڈ پنک' کے شرکا نے قریبی پارک سے تقریب کے مقام تک مارچ کیا۔ تنظیم کی ویب سائٹ سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ "امریکی میڈیا فلسطینی مخالف بیانیے کو برقرار رکھتا ہے اور اسرائیلی جنگی جرائم کو نظر انداز کرتا ہے۔"

جنگ مخالف مظاہرین نے رواں برس مارچ میں ریڈیو سٹی میوزک ہال نیویارک میں صدر بائیڈن کی انتخابی مہم کے لیے فنڈ ریزنگ ایونٹ میں بھی خلل ڈالا تھا۔

اب یہ تحریک امریکہ کی مختلف یونیورسٹیز تک پھیل چکی ہیں جہاں طلبہ احتجاجی کیمپ لگائے غزہ میں جنگ بندی کا مطابہ کر رہے ہیں۔

کچھ یہودی طلبہ اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ یہ مظاہرے یہود دشمنی کا ماحول پیدا کر رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ کیمپس میں جانے سے خوفزدہ ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ صورت حال پر قابو پانے کے لیے پولیس کی جزوی مداخلت ضروری ہے۔

وائٹ ہاؤس رپورٹرز ایسوسی ایشن کی صدر کیلی او ڈونیل نے ایونٹ کی سیکیورٹی سے متعلق پوچھے گئے سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔

امریکی صدر کی سیکیورٹی پر مامور سیکرٹ سروس کے ترجمان نے بتایا کہ امریکی صدر کا تحفظ یقینی بنانا، سروس کی اولین ترجیح ہے۔

سات اکتوبر کو اسرائیل میں حماس کے حملے میں 1200 افراد کی ہلاکت کے بعد اسرائیل کی جانب سے غزہ میں کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ فلسطینی حکام کے مطابق غزہ میں اب تک 34 ہزار سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

خیال رہے کہ وائٹ ہاؤس نامہ نگاروں کی ایسوسی ایشن کی بنیاد 1914 میں رکھی گئی تھی اور 1921 سے تقریباً ہر سال یہ ایک ڈنر کا اہتمام کرتی ہے جس میں صحافیوں کو سراہنے کے علاوہ اسکالر شپس کے لیے فنڈ ریزنگ بھی کی جاتی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG