رسائی کے لنکس

بچوں کے جنسی استحصال پر سخت سزا کا مجوزہ بل مسترد 


فائل فوٹو
فائل فوٹو

کمیٹی کی کنوینر نعیمہ کشور کا کہنا ہے کہ یہ بل اس لیے منظور نہیں ہو سکتا کیونکہ ایسے جرائم کی روک تھام کے لئے پہلے سے قانون اور سزائیں موجود ہیں۔

بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے سرگرم کارکن اور معاشرے کے دیگر حلقوں کی طرف سے پاکستان میں بچوں کے جنسی استحصال کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایسے واقعات میں ملوث افراد کو مزید سخت سزا دینے کے لئے قوانین میں مناسب ترامیم کے مطالبات سامنے آتے رہتے ہیں۔

تاہم اس سلسلے میں حال ہیں میں پاکستان کی قومی اسمبلی کی ایک ذیلی کمیٹی میں بچوں کے خلاف جنسی جرائم کے مرتکب افراد کے لیے سزاؤں کو سخت کرنے کے مجوزہ بل کو مسترد کر دیا گیا۔

یہ بل حزب مخالف کی جماعت تحریک انصاف کی رکن قومی اسبملی مسرت احمد زیب نے داخلہ امور کی ایک کمیٹی میں پیش کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ بچوں کے جنسی استحصال اور جنسی زیادتی کے جرائم میں دی جانے والی سزائیں ناکافی ہیں جنہیں مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے۔

دو سال قبل صوبہ پنجاب کے ضلع قصور اور پھر خیبر پختونخواہ میں ایسے متعدد واقعات پیش آئے جن میں ناصرف بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایاگیا بلکہ ان کی وڈیوز بنا کر ان کا استحصال کیا گیا۔

مسرت زیب نے کمیٹی میں موقف اختیار کیا کہ بچوں کی وڈیوز بنا کر ان کے استحصال کرنے کو بھی جنسی زیادتی کی طرح سنگین جرم قرار دے کر اس کے لئے سخت سزا مقرر کی جانی چاہیے۔

تاہم کمیٹی کی کنوینر نعیمہ کشور کا کہنا ہے کہ یہ بل اس لیے منظور نہیں ہو سکتا کیونکہ ایسے جرائم کی روک تھام کے لئے پہلے سے قانون اور سزائیں موجود ہیں۔

بچوں کے حقوق کے سرگرم کارکن اور ماہر قانون دان ضیا احمد اعوان کا کہنا ہے کہ مسئلہ قوانین اور سخت سزاؤں کے فقدان کا نہیں بلکہ پہلے سے موجود قوانین کے نفاذ کو موثر بنانا ضروری ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں اور خواتین سے متعلق مقدمات کی سماعت کے لئے الگ عدالتیں قائم کی جائیں۔

"یہ فوجداری نظام انصاف ہے اس میں ہمیں بچوں اور عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم کو بہت سنجیدگی سے لینا ہو گا۔ حتیٰ کہ وہ بچے جن کی خلاف کسی مقدمے کی سماعت ہے ان کے مقدمات کی سماعت بھی الگ ہونی چاہیے کیونکہ انہیں ہمیں اس ماحول سے دور رکھنا ہے جہاں عام مجرموں کے خلاف مقدمات کی سماعت ہوتی ہے۔"

ضیا اعوان نے کہا کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے ناصرف حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے بلکہ سیاسی جماعتوں کو بھی انہیں اپنے منشور کا حصہ بنانا ہو گا۔

" یہ جو معاملات ہیں ان کی طرف سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے اور چاروں صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اس کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ بچوں اور عورتوں کے خلاف ہونے جرائم کے خلاف آواز اٹھائیں۔"

بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم غیر سرکاری تنظیم ساحل کے مطابق 2015 میں ملک بھر میں 11 سے 15 سال کی عمر کے بچوں پر جنسی تشدد کے لگ بھگ تین ہزار سات سو ساٹھ سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے۔

حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ حکومت ایسے واقعات کو سنجیدگی سے لیتی ہے اور اس نے ملک بھر میں درجن سے زائد ایسے متحسب مقرر کیے ہیں جو صرف بچوں سے متعلق شکایات کے ازالے کے لیے کام رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG