رسائی کے لنکس

افغان جنگ کی نجکاری


غزنی میں افغان سیکیورٹی فورسز گشت کر رہی ہیں۔ فائل
غزنی میں افغان سیکیورٹی فورسز گشت کر رہی ہیں۔ فائل

امریکی سیکیورٹی کمپنی ’بلیک واٹر‘ نے افغان جنگ کی نجکاری کیلئے حکومت کی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے اعلیٰ افغان قیادت سے ملاقاتیں کی ہیں۔

’نیو یارک ٹائمز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، امریکہ کی نجی فوجی کمپنی ’اکادمی‘ کے سربراہ ایرک پرنس نے افغان صدر اشرف غنی کو 2017 میں ایک خط کے ذریعے اُن سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ تاہم، اشرف غنی نے ملاقات سے انکار کر دیا تھا۔

بتایا جاتا ہے کہ پرنس نے اس سلسلے میں متعدد اہم افغان شخصیات سے مسلسل رابطے کئے ہیں جن میں ایسی شخصیات بھی شامل ہیں جو آئیندہ صدارتی انتخاب میں صدر اشرف غنی کے مد مقابل اُمیدوار کے طور سامنے آ سکتی ہیں۔ افغانستان میں صدارتی انتخابات پروگرام کے مطابق آئندہ برس منعقد ہوں گے۔

تاہم، پرنس نے اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ سے بات کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وہ افغان سیاست میں مداخلت نہیں کر رہے ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ افغانستان میں انتخابات ہونے والے ہیں اور افغان عوام خود اپنے لیڈر کا انتخاب کریں گے۔ تاہم، پرنس کا کہنا تھا کہ افغانستان میں جو بھی سیاسی جماعت برسر اقتدار آئی، وہ اُس کے لیڈروں سے افغان جنگ کے ایسے متبادل طریقوں کے بارے میں بات کریں گے جن سے لوگوں کا خون بہنا روکا جا سکے۔

بلیک واٹر کمپنی کے سربراہ ایرک پرنس۔ فائل فوٹو
بلیک واٹر کمپنی کے سربراہ ایرک پرنس۔ فائل فوٹو

پرنس امریکہ کی وزیر تعلیم بیٹسی ڈیووس کے بھائی ہیں۔

بلیک واٹر کمپنی پر 2007 میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ اُس کے اہلکاروں نے 17 عراقی شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس کمپنی کے ایک گارڈ کو قتل کے جرم میں دی گئی سزا کو گزشتہ برس منسوخ کر دیا گیا تھا۔ امریکہ کی اپیل کی عدالت نے تین مزید ملزمان کو دوبارہ سزا سنائے جانے کا حکم دیا تھا۔

افغان صدر اشرف غنی نے گزشتہ ہفتے شمالی صوبہٴ بلخ میں ایک خطاب کے دوران جنگ کی نجکاری کی تجویز کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ نقائص پر مبنی اور ناقابل استعمال تجاویز دی جا رہی ہیں جن میں جنگ کی نجکاری اور افغانستان کے معدنی وسائل کی تلاش کے حوالے سے تجاویز بھی شامل ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ افغان لوگ کسی کو بھی یہ حق نہیں دیں گے کہ وہ افغانستان کے معدنی وسائل کا استحصال کرے۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی۔ فائل فوٹو
افغانستان کے صدر اشرف غنی۔ فائل فوٹو

افغان صدر غنی کے اس اعلان کے بعد افغان نیشنل سیکیورٹی کونسل نے بھی ایک ٹویٹر پیغام میں کہا تھا کہ افغانستان اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ امن و استحکام کیلئے اُس کی جدوجہد کو کوئی اپنے مالی فائدے کیلئے استعمال کرے۔ پیغام میں کہا گیا کہ افغانستان ایک خود مختار ملک کی حیثیت سے اُن لوگوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے پر غور کرے گا جو افغانستان کی سرزمین پر جنگ کی نجکاری کی کوشش کر رہے ہیں۔

جنگ کی نجکاری کے حوالے سے ’بلیک واٹر کمپنی‘ کے سربراہ، پرنس کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں موجود ہزاروں امریکی فوجیوں کی جگہ نسبتاً کم تعداد میں نجی کنٹریکٹرز متعین کریں گے جن کی مدد کیلئے 90 لڑاکا جہازوں پر مشتمل نجی فضائیہ موجود ہوگی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس نجی جنگ کی رابطہ کاری کے فرائض ایک کمانڈر انجام دے گا جسے وہ ’وائسرائے‘ سے موسوم کرتے ہیں۔

پرنس نے میڈیا کو دئے گئے متعدد انٹرویوز میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا حوالہ دیا جس نے 19 ویں صدی کے دوران برصغیر پاک و ہند پر حکمرانی کی تھی۔

واشنگٹن کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر میٹ ڈیئرنگ ایسٹ انڈیا کمپنی کے حوالے کو تاریخ مسخ کرنے سے تعبیر کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ پرنس اکثر ایسٹ انڈیا کمپنی کو ریاستی اُمور کی نجکاری کے حوالے سے ایک کامیاب کیس سٹڈی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ لیکن یہ تاریخ کو شدید طور پر مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا یہ مطمع نظر بالکل نہیں تھا کہ ایک قوم کی تعمیر کی جائے۔ بلکہ اُس نے مغل سلطنت کا خاتمہ کرتے ہوئے اپنے شیئر ہولڈروں کو فائدہ پہنچایا اور اس مقصد کیلئے وہ عوام پر خوف طاری کر کے ریاست پر قابض ہو گئی۔

ڈیئرنگ کہتے ہیں کہ پرنس کے منصوبے میں اس بات کا بھی خیال نہیں رکھا گیا کہ عسکریت پسند کس طرح افغان حکومت اور طالبان کے درمیان سمجھوتے کیلئے کوشش کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ امریکہ اور افغان فوج مل کر لڑائیاں جیت سکتے ہیں۔ تاہم، افغانستان کا دیرپہ حل سیاسی بنیادوں پر ہی ممکن ہے اور جنگ کی نجکاری ہمیں اس مقصد کے قریب نہیں لے جا سکتی۔

افغان صدر اشرف غنی کے سابق نائب وزیر دفاع تمیم آسے کہتے ہیں کہ نجی سیکیورٹی کمپنیاں افغانستان میں بدنام ہیں اور اگر اُنہیں افغانستان میں کام کرنے کا موقع دیا گیا تو پوری قوم کی طرف سے کسی ممکنہ بغاوت کا مقابلہ نہیں کر پائیں گی۔ لہٰذا، جنگ کی نجکاری سے متعلق پرنس کا منصوبہ سیاسی اور فوجی دونوں لحاظ سے ناقابل عمل ہے۔

XS
SM
MD
LG