رسائی کے لنکس

’’یہودی بستیوں کی تعمیر سے مذاکرات میں خلل پڑ سکتا ہے‘‘


’’یہودی بستیوں کی تعمیر سے مذاکرات میں خلل پڑ سکتا ہے‘‘
’’یہودی بستیوں کی تعمیر سے مذاکرات میں خلل پڑ سکتا ہے‘‘

سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے اسرائیل اور فلسطینیوں پر زور دیا ہے کہ وہ ایسی کارروائیوں سے پرہیز کریں جن سے مشرقِ وسطیٰ میں امن مذاکرات دوبارہ شروع ہونے میں خلل پڑے۔ مسٹر بلیئر نے وائس آف امریکہ کے نامہ نگار میریڈتھ بیول کو بتایا کہ مشرقی یروشلم میں یہودی بستیوں کی تعمیر اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے تشدد کے نتیجے میں ہو سکتا ہے کہ دونوں فریقوں میں مذاکرات کی خواہش ہی ختم ہو جائے ۔

حالیہ ہفتوں کے دوران فلسطینیوں اور اسرائیلی فوجوں کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔فلسطینیوں کا خیال ہے کہ اسرائیلی حکومت کے حالیہ اقدامات کا مقصد یہ ہے کہ اس زمین پر جسے فلسطینی مستقبل میں اپنی مملکت کا حصہ بنانا چاہتے ہیں، یہودیوں کی گرفت مضبوط ہو جائے ۔

حال ہی میں مشرق وسطیٰ کے لیے بین الاقوامی Quartet نے مقبوضہ مشرقی یروشلم میں اسرائیل کی طرف سے یہودی آبادکاروں کے لیے مزید 1600 نئے گھر تعمیر کرنے کےاعلان کی مذمت کی ۔

سابق برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر اس علاقے میں Quartet کے خصوصی مندوب ہیں۔ انھوں نے کہا’’ضروری بات یہ ہے کہ لوگ کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے ہماری ان کوششوں میں رکاوٹ یا خلل پڑے کہ فریقین میز کے گرد بیٹھ کر مذاکرات کریں اور کسی سمجھوتے پر متفق ہو جائیں۔‘‘

امریکہ امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اسرائیل کے مشرقی یروشلم میں بستیوں کو وسعت دینے کے فیصلے سے اس کوشش میں خلل پڑنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے ۔ مسٹر بلیئر کہتے ہیں کہ دونوں فریقوں کو ایسے اقدامات سے پرہیز کرنا چاہیئے جن سے مذاکرات کے امکانات کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔اسرائیلی بستیوں کے بارے میں یہ بحث اسی لیے شروع ہوئی ہے ۔ فلسطینیوں کو بھی اس بات کو یقینی بنانا چاہیئے کہ وہ کوئی ایسی کارروائی نہ کریں جس سے اسرائیلی یہ سمجھنے لگیں کہ کسی بھی طرح لوگوں کو تشد د پر اکسایا جا رہا ہے ۔

The Quartet یعنی چار کے گروپ میں اقوامِ متحدہ، روس، یورپی یونین، اور امریکہ شامل ہیں۔تقریباً تین سال سے، مسٹر بلیئر اس گروپ کے نمائندے کے طور پر کام کر رہے ہیں اور ان کا مقصد یہ رہا ہے کہ فلسطینی معیشت اور اداروں کو ترقی دی جائے تا کہ اگر فریقین دو مملکتوں والے حل پر متفق ہو جائیں تو فلسطینی ریاست اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے تیار ہو۔انھوں نے کہا’’میرا نظریہ تو بس یہ ہے کہ مذاکرات شروع کرائے جائیں اور پھر صبر و سکون سے، خاموشی سے مملکت کے اداروں اور معیشت کی تعمیر کی کوشش کی جائے اور مغربی کنارے اور فلسطینی علاقے کو ترقی دی جائے ۔‘‘

مسٹر بلیئر جب برطانیہ کے وزیرِ اعظم تھے، تو ان پر صدر جارج ڈبلو بُش کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے کی بنا پر تنقید کی گئی تھی ۔ انھوں نے برطانوی فوجیں عراق اور افغانستان بھیجنے پر اتفاق کیا تھا اور وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے فیصلوں پر اب بھی قائم ہیں۔ان جنگوں سے ہمیں جو اہم سبق ملا ہے وہ یہ ہے کہ انتہاپسندی کے خلاف جنگ لڑنا بہت مشکل کام ہے اور اس کے لیے طویل عرصے تک کوشش کرنی پڑے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں وہاں طویل عرصے تک لڑنے کے لیے تیار رہنا چاہیئے، اپنی اقدار کی حفاظت کے لیے اور اپنے اس عزم کے اظہا ر کے لیے بھی کہ جو لوگ دہشت گردی اور خود کش بمباری کا استعمال کرتے ہیں انہیں اپنی من مانی کرنے کی اجازت نہیں ملنی چاہیئے ۔

’’یہودی بستیوں کی تعمیر سے مذاکرات میں خلل پڑ سکتا ہے‘‘
’’یہودی بستیوں کی تعمیر سے مذاکرات میں خلل پڑ سکتا ہے‘‘

وہ کہتے ہیں کہ اپنی ذاتی مذہبی عقائد کی بدولت میں نے خود کو امن کے عمل کے لیے وقف کر دیا ہے ۔بلیئر نے کہا’’آپ ابراہیمی مذاہب میں سے کسی بھی مذہب کے ماننے والے کیوں نہ ہوں ، آپ چاہے یہودی ہوں، مسیحی ہوں یا مسلمان ، ارض مقد س میں یروشلم کے آس پاس موجود ہونا ، بڑا ہی ولولہ انگیز تجربہ ہے۔اسی لیے جب لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ اتنی دشواریوں اور چیلنجوں کے ساتھ وہاں موجود ہونے سے آپ کو یقیناً کوئی لطف محسوس نہیں ہوتا ہوگا تو میں جواب دیتا ہوں کہ مجھے واقعی بہت اچھا لگتا ہے ۔‘‘

مسٹر بلیئر کی ذاتی یاد داشتوں پر مبنی کتاب، جس کا عنوان “The Journey” ہے، اس سال کے آخر میں شائع ہونے والی ہے ۔

سابق برطانوی وزیر اعظم کہتے ہیں کہ انھوں نے یہ سبق سیکھا ہے کہ ہمیشہ سب کو خوش نہیں رکھا جا سکتا لیکن ملک کی قیادت کا طریقہ صرف یہ ہے کہ آپ ہمیشہ صحیح فیصلہ کرنے کی کوشش کر تے رہیں۔

XS
SM
MD
LG