رسائی کے لنکس

جکارتہ حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کر لی


بم دھماکے جمعرات کی صبح وسطی جکارتہ کے اس علاقے میں شروع ہوئے جہاں بڑے شاپنگ سینٹر، سفارتخانے اور دیگر عمارتیں واقع ہیں۔

انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتا میں سلسلہ وار بم دھماکوں اور فائرنگ کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔

جمعرات کو ان واقعات میں تمام پانچ حملہ آوروں سمیت سات افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

داعش سے منسلک آماق خبر رساں ایجنسی کا کہنا ہے کہ ان حملوں کا نشانہ وسطی جکارتہ میں "غیرملکی باشندے اور ان کی حفاظت پر مامور سکیورٹی اہلکار تھے۔"

اس سے قبل انڈونیشیا کی پولیس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ان حملوں میں داعش سے وابستہ ایک گروپ ملوث ہو سکتا ہے۔

حکام اور عینی شاہدین کے مطابق شدت پسندوں نے دارالحکومت جکارتہ میں جمعرات کو متعدد بم دھماکے کیے جس کے بعد پولیس کے ساتھ ان کی شدید جھڑپیں ہوئیں۔

بم دھماکے جمعرات کی صبح وسطی جکارتہ کے اس علاقے میں شروع ہوئے جہاں بڑے شاپنگ سینٹر، سفارتخانے اور دیگر عمارتیں واقع ہیں۔

ایک دھماکہ سٹاربکس کافی شاپ پر ہوا جہاں پولیس کے پہنچنے کے بعد شدت پسندوں سے ان کی جھڑپ بھی ہوئی۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کچھ دھماکے خود کش بمباروں نے کیے اگرچہ پولیس افسران نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ دستی بم استعمال کیے جانے کا امکان ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر شائع کی گئی تصایر اور وڈیوز میں متعدد لاشوں کو مرکزی شاہراہ پر گرے دیکھا جا سکتا ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق وہاں بھاری تعداد میں پولیس موجود تھی جس کے باعث صحافیوں کو وہاں جانے کی اجازت نہیں۔

علاقے میں موجود اقوام متحدہ کی ایک عمارت میں لوگ محصور ہیں۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم کے جنوب مشرقی ایشیا کے لیے علاقائی نمائندے جریمی ڈگلس نے متعدد ٹویٹس میں بتایا کہ کم از کم چھ دھماکے ہوئے ہیں جس میں بظاہر ایک خود کش بمبار بھی شامل تھا اور ’’سڑک پر فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے۔‘‘

دنیا کے سب سے بڑے مسلمان ملک انڈونیشیا میں ماضی میں بھی دہشت گردی کے واقعات ہو چکے ہیں جن میں 2002 میں بالی میں ہونے والی بمباری شامل ہے جس میں 202 افراد ہلاک ہو گئے تھے، ان میں اکثریت غیر ملکی سیاحوں کی تھی۔

غیر ملکیوں کے خلاف آخری حملہ جکارتہ میں 2009 میں ہوا جس میں ہوٹل کی عمارت میں دو دھماکے کیے گئے۔

جکارتہ طویل عرصہ سے داعش اور دیگر شدت پسند گروہوں سے درپیش خطرے کے بارے میں انتباہ کرتا رہا ہے۔ خیال ہے کہ انڈونیشیا کے سینکڑوں افراد ملک چھوڑ کر شام اور عراق میں داعش میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔

پاکستان کے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے اور ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے لیے گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی مسلمان ملکوں کے لیے ایک مشترکہ خطرہ ہے اور اس سے جنگ ہماری مشترکہ ذمے داری ہے۔

XS
SM
MD
LG