رسائی کے لنکس

بوسٹن: زوخار کا اقرارِجرم، معافی کی التجا


اکیس برس کے سارنیف نےکمرہ عدالت میں بیان دیا کہ ’میں نے جانیں لیں۔ آپ کو اذیت دینے، آپ کو نقصان پہنچانے، ناقابل تلافی نقصان پہنچانے پر معافی مانگتا ہوں‘۔ اُس وقت کمرہ عدالت کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، جن میں سےچند 15 اپریل، 2013ء کے حملے میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کے والدین تھے

بوسٹن میراتھون ریس میں بم حملہ آور، زوخار سارنیف نے بدھ کے روز ہونے والی سماعت کے دوران2013ء کے ہلاکت خیز حملے پر معافی طلب کی ہے، جب کہ بم حملوں اور اُس کے بعد، چار افراد کی ہلاکت اور 264 کو زخمی کرنے کے جرم پر ایک امریکی جج نے اُنھیں باضابطہ طور پر موت کی سزا سنائی۔

اکیس برس کے سارنیف نےکمرہ عدالت میں بیان دیا کہ ’میں نے جانیں لیں۔ آپ کو اذیت دینے، آپ کو نقصان پہنچانے، ناقابل تلافی نقصان پہنچانے پر معافی مانگتا ہوں‘۔ اُس وقت کمرہ عدالت کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، جن میں سےچند 15 اپریل، 2013ء کے حملے میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کے والدین تھے۔

پہلی بار ایسا ہوا کہ سارنیف عدالت سے مخاطب ہوا، جب کہ مقدمے کی کارروائی کے دوران اپنے دفاع میں وہ کچھ نہیں بولا۔

ملزمان کے لیے مختص اسٹینڈ سے بات کرتے ہوئے، سارنیف نے کہا کہ ’اگر تو کسی کو کوئی شبہ ہو، میں اپنے بھائی کے ہمراہ اِس حملےمیں قصور وار ہوں‘۔

میراتھون ریس کی اختتامی لائن کے قریب کیے گئے بم حملوں میں، سارنیف کو پہلے ہی تین افراد کی ہلاکت اور 264 کو زخمی کرنے کے ساتھ ساتھ تین روز بعد ایک پولیس اہل کار کو شوٹنگ میں شدید زخمی کرنےکے جرم میں قصور وار ٹھہرایا جا چکا ہے۔ اِسی وفاقی جیوری، جس نے اپریل میں اُنھیں سزا سنائی تھی، مئی میں ووٹوں کی مدد سے موت کی سزا کو برقرار رکھا۔

یہ بم حملے 11ستمبر، 2001ء کے بعد امریکی سرزمین پر ہونے والے سب سے بڑے حملے تھے۔

سارنیف کو زہریلے انجیکشن کے ذریعے موت کی سزا سنانے سے قبل، امریکی ضلعی جج، جارج او تولے نے کہا کہ جہاں تک آپ کے نام کا ذکر آئے گا، اُسے برائی کی علامت کے طور پر یاد کیا جائے گا‘۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ،’جو بات یاد رکھی جائے گی وہ یہ کہ تم نے بے گناہ افراد کو قتل اور زخمی کیا، اور یہ عمل دیدہ و دانستہ طور پر کیا گیا۔ تم نے جان بوجھ کر ایسا کیا‘۔

سارنیف نے دو درجن افراد کےبیان کے بعد بات کی، جن میں وہ افراد بھی شامل تھے جنھوں نے اس بم حملے میں اپنے پیارے گنوائے یا اعضا سے محروم ہوئے، جنھوں نے حملے کے نتیجے میں اپنی زندگیوں پر پڑنے والے شدید اثرات کا ذکر کیا۔

ربیکا گریگری، جنھوں نے اپریل کے اُس خون آلود دِن اپنی ٹانگ گنوائی، سارنیف سے براہ راست مخاطب ہوئیں۔

بقول اُن کے،’ تم جیسے دہشت گرد اس دنیا میں دو چیزیں کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلاتے ہیں، لیکن دوسری بات زیادہ دلچسپ ہے‘۔

’کیونکہ، کیا تمہیں واقعی پتا ہے کہ بڑے پیمانے پر تباہی کا مطلب کیا ہے؟ اس سے لوگ ایک ہوجاتے ہیں۔ ہم عظیم بوسٹن والے اور عظیم امریکی ہیں، اور ہمارے ساتھ الجھنے کا نتیجہ بہت برا ہوتا ہے۔ تمہارے عمل سے تکلیف پہنچنے والی کے اس رد عمل پر کیا کہو گے؟‘

سارنیف کے مقدمے کی کارروائی کے دوران، بوسٹن حملوں کی بدترین یادوں سے پردہ اٹھا۔

مقدمے کے دوران وفاقی وکلائے استغاثہ نے چیچن نسل کے بھائیوں کو القاعدہ کے شدت پسند مذہبی نظریات کے ماننے والے قرار دیا، جو دنیا بھر میں مشہور دوڑ میں حملہ کرکے ’امریکہ کو سزا دینا چاہتے تھے‘۔

سارنیف کے وکلا نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اُن کا مؤکل حملے میں ملوث تھا، لیکن اِس سازش میں اُسے ایک جونیئر پارٹنر قرار دیا، جسے اُن کے بڑے بھائی نے تیار کیا۔ سارنیف خاندان اس حملے سے ایک عشرہ قبل روس سے امریکہ آیا۔

سزا سنائے جانے کے باوجود، عین ممکن ہے کہ سارنیف کی قانونی لڑائی اگر دہائیوں تک نہیں تو برسوں تک جاری رہ سکتی ہے۔ سنہ 1998 سے اب تک امریکہ میں موت کی سزا دیے گئے مجرمان کی تعداد 74 ہے، جن میں سے صرف تین کو فی الواقع سزا ہوئی ہے۔

پیٹریشیا کی والدہ، کرسٹل کیمپ بیل نے سارنیف کے عمل کو ’قابلِ حقارت‘ قرار دیا۔

کیمپ بیل کے بقول، ’تم غلط راہ پر چلے گئے۔ مجھے پتا ہے کہ زندگی دشوار ہے۔ لیکن، تم نے جس راستے کا انتخاب کیا وہ قابل حقارت؛ اور تم نے جو کچھ میری بیٹی کے ساتھ کیا وہ ناقابل برداشت ہے‘۔

سارنیف نے اپنے لیے اور اپنے بھائی کے لیے معافی مانگی۔

سارنیف کے بقول، ’میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھ پر، میرے بھائی اور میرے خاندان پر رحم فرمائے۔ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آج یہاں موجود سب حضرات پر اپنا رحم فرمائے‘۔

XS
SM
MD
LG